آج ایک رِسالے پر نظر پڑی تو اِس میں ایک ادیب کا انٹرویو دیکھا جسکی ایک سرخی تھی کہ معتبر مگر نظرانداز کئے گئے ادیب سے گفتگو اِس سرخی نے ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کیا اور مشہور کالم نگار جاوید چودھری بھی اپنی ایک تحریر کے ساتھ یاد آگئے۔ انکی تحریر پرگفتگو آگے ہوگی ، ہم اگر اپنے پورے معاشرے پرذرا غائر نظر ڈالیں تو ہر شعبے میں اس طرح کے لوگ مل جائیں گے، جنہیں یہ شکایت ہے کہ وہ حضرتِ علامہ ہیں، فنکارِ اعظم ہیں مگر لوگ انھیں نظر انداز کئے ہو ئے ہیں۔ دراصل یہ ایک طرح کا عارضہ ہے، جسے خوش فہمی کہا جاتاہے ،جو اپنے آپ میں ایک طرح کی غلط فہمی ہی ہوتی ہے۔ اسے لطیفہ کہیے یاکچھ اور نام دِیجیے کہ کسی پاگل خانے میں ایک شخص دیگر پاگلوں کو زمین پر اپنے سا منے ہاتھ باندھے سرجھکائے با ادب بٹھائے ہوئے تھا اور خود کرسی نما کسی چیز پر بڑی تمکنت کے ساتھ جلوہ افرو ز تھا کہ اسی اثنا میں پاگل خانے کے سربراہ(ڈاکٹر) کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے صاحب تمکنت سے پوچھا : بھئی کیا بات ہے یہ سب کیا لگا رکھا ہے آپ نے ؟ وہ بلند آوا ز سے بولا :ہائیں تم مجھے نہیں جانتے؟ میں اکبر اعظم ہوں اور اس وقت میرا دربار لگا ہوا ہے ، یہ سب میرے درباری ہیں۔ سربراہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ اسے اتفاق کہیے کہ دو دِن بعد پاگل خانے میں ایک مریض کا اور ورودہوا وہ باہر ہی سے اپنے آپکو اکبر اعظم کہتا ہوا داخل ہوا۔ سربراہ ڈاکٹر بڑاپریشان ہوا کہ ایک اکبر اعظم تو پہلے ہی سے یہاں موجود ہے اب یہ دوسرے اکبر اعظم تو اس پاگل خانے کو پانی پت کا میدان بنا دیں گے۔ لہذا ڈاکٹر نے آن کی آن یہ فیصلہ کیا کہ دونوں اکبر اعظم کو ایک ہی کمرے میں رکھا جائے، اور یہی ہوا۔ دو تین دن بعد اس کمرے کی طرف جس میں یہ دونوں رکھے گئے تھے۔ ڈاکٹر کا گزر ہوا اس نے کمرے میں دیکھا تو ایک اکبر اعظم اونچی جگہ پر براجمان ہیں اور دوسرے اکبر اعظم زمین پر پھسکا مارے منہ پر ہاتھ رکھے، گردن جھکائے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر نے زمین پر بیٹھے ہوئے پاگل سے پوچھا: مہا بلی اکبر اعظم آپ کیسے ہیں؟ اس نے گردن اٹھائے بغیر کہا: نہیں میں اکبر اعظم نہیں ہوں، مجھے معلوم ہوگیا میں کیا ہوں؟ ڈاکٹر نے دوسرا سوال کیا، تو پھرکیا ہیں آپ؟ اس نے ترنت جواب دیا: میں جودھا بائی ہوں۔ ڈاکٹر اپنے نسخے کی کامیابی پر مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔ در اصل ہمارے معاشرے میں اکثر افراد اپنے آپ کو اکبر اعظم ہی سمجھے ہوئے ہیں ۔ مگر ایک وقت ایسا آہی جاتا ہے جب حالات ہمیں بتا دیتے ہیں کہ ہم کیا ہیں!! لیکن ہم اس پاگل سے بھی گئے گزرے ہیں کہ ہمیں سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ ہم کیا ہیںبلکہ سچ یہ ہے کہ سمجھ میں تو آتا ہے مگر بات قبول کرنے یا تسلیم کرنے کی ہے۔ ہمیں یہ کہنے یا سمجھنے میں بڑی تسکین ملتی ہے کہ ہم معتبر ہیں اور ہمیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا علاج ممکن نہیں ہوتا یہا ںناممکن سے مرا دیہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مریض ہی نہیں سمجھتے اور جب وہ اپنے کو مریض ہی نہیں سمجھتے تو پھر کس بات کاعلاج ؟ اصل مرض یہی ہے۔ اسکے برعکس ہم آپکو ایک دوسری تصویر جاوید چودھری کے ایک مضمون سے پیش کرتے ہیں( جی ہاں اس مضمون کی سرخی یہی چار ہندسے ہیں) جاوید چودھری نے اس مضمون میں ایک بد صورت لڑکی ملیا کا ذکر کیا ہے جو امریکہ کے ایک بڑے اسٹور ( جسکے سیکڑوں اسٹور امریکہ کے دیگر شہروں میں موجود ہیں)میں سیلس گرل تھی وہ اپنی بد صورتی کے باوجود اس اسٹور ، اس کمپنی کی کامیاب ترین سیلس گرل تھی۔ کمپنی کی ماہانہ میٹنگ تھی جس میں عملے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ وہ بد صورت لڑکی ملیا ہر جائزے میں اول آتی تھی ملیا اپنی کمپنی کی وہ خوش نصیب سیلس گرل تھی جسے ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹیوز نے اپنی اعلی ترین میٹنگ میں شرکت کی دعوت دِی۔ کمپنی کے پالیسی سازوں نے ملیا سے اس کی کامیابی کا گر پوچھا، کمپنی کا سربراہ جو اِس جائزہ میٹنگ کی صدارت کر رہا تھا اپنی کمپنی کی اس بدصورت مگر کامیاب ترین سیلز گرل کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھا ہوا تھا۔ ملیا نے مسکرا کر مذکورہ سوال کا جواب دِیا: دو گر ہیں۔ تمام شرکا یہ دوگر جاننے کیلئے بیتاب ملیا کی طرف دیکھتے ہوئے گوش بر آواز تھے۔
ملیا گویا ہوتی ہے: پہلا گر تو میری بد صورتی ہی ہے جس کا اِدراک مجھے بچپن ہی میں ہوگیا تھا۔ لہذا میں نے اپنے ذہن، اپنی اخلاقیات اور اپنی زبان ہی کو خوب سے خوب بنانے کی کوشش کی۔ مجھے صرف دیکھنے والے تو مسترد کر دیتے ہیں مگر مجھ سے ملنے والے، میرے ساتھ معاملہ کرنے والے، مجھ سے گفتگو کرنے والے مجھے کبھی نہیں بھولتے یہ مجھے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ اور پھر اس نے اِسٹور میں اپنی کارکردگی کی تفصیل بیان کی۔ تمام شرکا نے اس کی نہ صرف پوری روداد سنی بلکہ کھڑے ہوکر تالیوں سے ملیا کی تحسین بھی کی۔ اس سلسلے میں مزید بیان کی ہم ضرورت محسوس نہیں کرتے
ہم یہ نہیں جانتے کہ قدرت نے ہمیں صلاحتیں دے کر دنیامیں بھیجا ہے مگرہم ان صلاحیتوں کو جگانے کی ، ان کو دریافت کرنے کی کوشش نہیں کرتے اوردنیا سے یونہی رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ کیسی محرومی ہے۔ اب ہم چاہیں تو یہ کہہ کر گزر جائیں کہ ہم معتبر ہیں مگر ہمیں نظر انداز کیا گیا گزر جائیے مگر ملیا جیسے اِنسان بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ معتبر کون اور کیسے بنتا ہے؟ اصل سوال یہی ہے اور جس نے اس سوال کا جواب پا لیا و ہی کامیاب و کامران رہا۔ ن۔ ص