معروف اردو نارویجن پنجابی شاعر مسعود منورسے گفتگو

معروف اردو نارویجن پنجابی شاعر مسعود منورسے گفتگو

انٹر ویو شازیہ عندلیب
تعا  رف
مسعود  منورناروے میں اردو ادب کی اہم اور ہمہ جہت شخصیت ہیں۔انتہائی شفیق،حلیم اور علم دوست ہستی ہیں۔وہ علم اور زبان کا ایک دریا ہیں۔علم پھیلانے میں بہت دریا دل ہیں۔رہتے بھی درامن شہر میں ایک دریا کے پاس ہیں۔وہ بیک وقت ایک ادیب شاعر نقاد اور استاد ہیں۔انکی گفتگو میں ایک خاص قسم کی شگفتگی اور علمیت پائی جاتی ہے۔آج ان علم دوست ادبی شخصیت سے کی گئی ایک ادبی نشست کی گفتگوقارئین کی نذر ہے۔اس کے بارے میں نیچے دی گئی جگہ میں اپنی رائے دینا نہ بھولیں۔
مسعود  منورکا کہنا ہے کہ میں اس زمین کا باسی نہیں بلکہ کسی اور سیارے سے آیا ہوں۔میں ایک مسافر ہوں اور سیر کر کے واپس چلاجائوں گا۔جب میںپیدا ہوا پاکستان نہیں بنا تھا ۔پاکستان مجھ سے عمر میں چھوٹا ہے۔میں ہندوستان کے ایک جزیرے لکش دیپ میں پیدا ہوا۔
ننھال چنیوٹ میں تھا۔اسلامیہ اسکول اور  لاہور کالج سے تعلیم حاصل کی۔کراچی جناح کالج سے تعلیم مکمل کی۔اور گریجویشن پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔
میں نے اردو لٹریچر نہیں پڑھا۔ یہ پڑھنے سے نہیں آتا۔ یہ خداددا صلاحیت ہوتی ہے۔وہ جو رب کہتا ہے کہ
قسم ہے قلم کی ان سطروں میںجو لکھا جا رہا ہے۔خدا نے بھی قسم کھائی ہے قلم کی۔
آتے ہیں غیب سے یہ مظاہرے
ہم پہ بھی وحی اترتی ہے
نبی پاک کو بھی شاعر کہا گیا ہے۔پوری ایک سوررة شاعروں پر لکھی گئی ہے۔عرب میں ایک سالانہ میلہ ہوتا تھا۔ اس میں شاعر قصیدے پڑھتے تھے۔اول آنے والے ملک  الشعراء کا قصیدہ کعبے کی دیوار پہ لٹکا دیا جاتا تھا۔اس زمانے میں سات قصیدے لٹکائے جاتے تھے۔عربوں میں روائیت تھی کہ ایک شاعروں کا بادشاہ ہوتا تھا۔اس میلے کی تفصیل مولانا حالی کے مقدمہء شاعری میں لکھی گئی ہے۔
اس اعتراض کا جواب کہ شاعروں کو مذہبی نقطہء نظر سے صحیح نہیں سمجھا گیا۔اسکی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ انہی سے لوگ سیدھا راستہ اختیار کرتے ہیں یا غلط راستہ ۔یہ تو اس چھری کی مانند ہے کہ چاہو تو سبزی کاٹ لو یا پیٹ میں گھونپ دو۔حضرت عمر نے فرمان جاری کیا تھا کہ لوگوں کو اچھے شعر سکھائو اس سے رابطے پیدا ہوتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میں نے ابھی اسکول جانا نہیں شروع کیا تھا کہ میں جو بات کرتا میری ماں کہتی کہ تم تو شاعری کرتے ہو۔اس زمانے میں محلے میں فقیر صدا لگایا کرتے تھے۔کچھ کی آوازوں میں بہت درد ہوتا تھا ۔میں ان سے بہت متاثر ہوتا تھا۔البتہ میں نے باقائدہ دسویں جماعت کے بعد لکھنا شروع کیا۔میری پہلی نظم کالج میگزین میں چھپی تھی۔
میں فکری حوالے سے مولانا روم سے متاثر ہوا۔اس کے علاوہ حکیم صناعی غزنوی کو بھی پڑھا۔ علامہ اقبال کی بانگ درا میں نے تیسری جماعت میں ہیپڑھ لی تھی۔ اس کے علاوہ گلستان سعدی اور بوستان کا بہت اثر تھا۔بچپن میں مجھے ماں کتابیں پڑھ کر سنایا کرتی تھیں۔
میں نے صرف شاعری ہی نہیں کی بلکہ تیس چالیس کے قریب مضامین بھی لکھے ہیں۔میری کہانیاں جنگ لندن میں قلمی دوستی کے کالم میں چھپا کرتی تھیں۔روزنامہ لاہور میں کالم نگاری کیا کرتا تھا۔اس کے علاوہ لاہور کے ایک انگریزی ہفت روزہ میں بھی کالم لکھا کرتا تھا۔مجھے ہندو گر مکھی فارسی اور دیو ناگری زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔پنجاب کے شاعر بلھے شاہ  وارث شاہ بابافرید اور ہاشم شاہ حسین پسندیدہ شاعرتھے۔
اچھے ادیب کی خصوصیات کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،
ایک ادیب اور شاعر کا مقصد اللہ تک رسائی ہونا چاہیے۔اس کے لیے اسے چاہیے کہ وہ سورہ رحمان پڑھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے رنگ دیکھے۔اس سے  انسان کی ذات کے بے انتہا رنگ عیاں ہوتے ہیں۔عربی ہماری زبان نہیں ہے۔عرب زبان کے معاملے میں بہت آگے ہیں۔وہ سات دن کے بچے کو سات سال کے لیے گائوں بھیج دیا کرتے تھے۔گویا وہ سات سال کا نرسری اسکول ہوتا تھا۔ہمارے نبی کریمۖ  نے بھی سات سال تک کے لیے گائوں میں پرورش پائی۔ہم لوگ گوروں کو دیکھتے ہیں مگر کبھی ملا حضرات نبی پاک کی زندگی پر غور نہیں کرتے۔عرب میں بچوں کو گائوں کی عورتیں پرورش کے لیے لے جاتی تھیں۔شہروں میں تاجروں کی آمد و رفت کی وجہ سے زبان خالص نہیں رہتی تھی۔لوگ رٹی رٹائی زبان بول دیتے ہیں۔اسی لیے اقبال نے کہا ہے
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرس نے
کہاں سے آئے لاء لہ الاللہ
ہمیں تو ہمارے حالات نے زبردستی دیار غیر میں دھکیلا ورنہ ہم کیوں یہاں بھٹکتے۔بس ہم لوگوں کا وطیرہ یہ ہے کہ آپ کسی کو کچھ نہ کہیں لوگوں کے جھوٹ کو پی جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ زندگی مشکل ہے۔
لفظ کا مفہوم کیا ہے۔سائیکالوجی کی رو سے بات کو بیان کرنا بتانا لفظ کا مفہوم ہے۔آدمی کی سوچ اسکا مفہوم بدل دیتی ہے۔
زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا بہت اہم بات ہے۔جو زبان ماں کے دودھ کے ساتھ ملی اس کے ساتھ سوتیلا سلوک یوں فیس بک نے تو زبان ہی بگاڑ دی۔داکٹر شاہد جیسے لوگ ٹی وی پر غلط زبان کا  استعمال کر رہے ہیں۔یہی ٹی وی پوری قوم کے بچے دیکھ رہے ہیں اور غلط زبان سیکھ رہے ہیں۔جو بچے پاکستان سے باہر پلے بڑہے ہیں انہیں مادری زبان نہیں آتی۔ان سے بات اردو میں کریں تو جواب نارویجن میں ملے گا۔نااہل مائوں نے بچوں کو اپنی زبان نہ سکھا کر انکی پوری نسل بگاڑ دی۔ان نسلوں میں سے نئے شاعر اور ادیب کہاں سے آئیں گے۔یہ تو اندر سے پھوٹتی ہے۔جب تک زبان پرعبور نہ ہو اعلیٰ خیالات کی اسٹیٹ منٹ نہ دیں۔میں نے مختلف مضامین اور نثر کی کتابیں لکھیں جو کل سات ہیں۔ترجمہ بھی لکھے ہیں۔


میں ایوارڈ کے لیے نہیں لکھتا اسلیے کہ میں بنیادی طور پر ایک باغی ہوں۔معاشرے کی قدروں کو تسلیم نہیں کرتا۔ہر شخص کا ایک ضابطہ حیات ہوتا ہے میں جو کچھ لکھتا ہوں وہ ہضم نہیں ہوتا۔میں تمغے نہیں جمع کرتا۔لکھتا ہوں اور بھول جاتا ہوں تمغوں سے ذیادہ قدرت کے انعامات کی قدر کرتا ہوں۔واہ واہ کی شاعری زخموں کو کھرچنے کا فن ہے۔اور چھالوں کو پھوڑنے کاکام ہے۔
لوگوں  تم آخر  کیوں آہوں پہ واہ واہ کرتے ہو
سلام اس پر جو ٹوٹے ہوئے حجرے میں بیٹھا ہے
تو کیوں ہنستا ہے کروڑوں کی کوٹھی میں بیٹھ کر
اصل میں شاعری ایک ایڈونچر ہے ۔خدا کی تلاش کا نام ہے۔سونا کیوں چمکتا ہے ؟پھول خوشبو کیوں دیتا ہے؟درخت سے پکا پھل کیوں ٹپکتا ہے؟شاعر ان سب باتوں کو شعروں میں ڈھال کر سلیقے سے لوگوں تک پہنچا دیتا ہے۔ایک شاعر کو شعر گھڑنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔میں انہتر سال سے روز تازہ شعر کہتا ہوں۔میرے دماغ میں پرانی باتوں کا ذخیرہ نہیں لگا رہتا۔اگر آدمی کا رب سے رشتہ ہو تو وہ ہر روز نئی بات تخلیق کر سکتا ہے۔معاشرہ روپئے پیسے کی میت میں لپٹی قوم ہے۔یہ مختلف لابیوں میں بٹا ہوا ہے۔کائنات کو سمجھنے کے جوہر اور فہم و فراست کو سمجھنے کی کوشش ہی اصل شاعری ہے۔
میں نے شاعری میں رہنمائی کسی سے نہیں لی۔جون ایلیا کو ایک دفعہ دکھائی تھی اس نے کہا کیا ضرورت ہے دکھانے کی جو کرنا ہے کرو۔
میں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ دریائے چناب کی کنارے گزار ہے۔بس میری شاعری کا میٹر چناب کی لہروں اور ہل کی لکیروں سے بنا ہے۔میں استاد بھی رہ چکا ہوں۔تعلیم وہ ہے جو سچائی کو تسلیم کرے۔سوشل سائینس تین برس تک پڑہائی۔اس کا سچ سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان سیپ گنے اور موتی تک رسائی نہ ہو تو یہ تو کوئی بات نہ ہوئی جیسے قرآن کا ناظرہ پڑہنا۔یہ تو ایسا ہے کہ اگر آپ بیمار ہوں اور دوا کا نام لیتے رہیں تو اس سے انسان ٹھیک تو نہیں ہو جاتا۔جب تک دوا نہ کھائیں۔میں شاگرد نہیں پالتا۔اگر کوئی کچھ پوچھ لے تو وہ شاگرد نہیں بن جاتا۔اس کے لیے آپ  کا شاگرد کے ساتھ سچائی کا تعلق ہونا چاہیے۔ضرورت کے تحت جو دوست بنے وہ سچا دوست نہیں ہوتا۔جو ضرورت کے تحت کچھ پوچھے وہ شاگرد نہیں بن جاتا۔
اگر تربیت کی بات کی جا ئے و نااہل والدین نے گھروں کو چڑیا گھر بنا دیا ہے جس کا جدھر جی چاہتا ہے منہ اٹھا کر چل دیتا ہے۔شادی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہمارے خاندان میں شادی راجپوت خاندان سے باہر نہیں کی جاتی تھی۔میری بیوی میری پسند ہے۔میں اپنی پسندکے ساتھ چالیس برس سے خوش و خرم رہ رہا ہوں۔پاکستان مین شادی انسانی رشتوں کے بجائے روٹی اور روزی سے کی جاتی ہے۔رزق تو اللہ دیتا ہے رزق کی تنگی کے ڈر سے خودکشی کرنے والے اپنی ذات سے بے ایمانی کرتے ہیں۔یہ فرمان الہیٰ ہے کہ تمہارے رزق میں دوسروں کا حصہ ہے۔اس میں یتیموں بیوائوں کا حصہ ہے۔اپنے خاندان کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہا کہ چھوٹا بیٹا شاعری میں دلچسپی رکھتا ہے جبکہ بڑا بیٹا انگلش اور نارویجن زبانوں پرعبور رکھتا ہے ۔
ناروے میں اردو زبان کے سلسلے میں پنی خدمات کے سلسلے میں مسعود منور صاحب نے بتایا کہ ناروے وثین کے تحت پروگرام کرواتا رہتا ہوں۔پچھلے دنوں پاکستان سے عاصمہ جہانگیر کو بلوایا تھا ۔بہت کامیاب پروگرام ہوا۔اس میں سات سو کے لگ بھگ لوگوں نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ مشاعرے بھی منعقد ہوتے ہیں۔اس تنظیم کے صدر ارشد بٹ ہیں۔اس کے علاوہ پنجاب فیملی نیٹ ورک لاہور کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بھی کئی پروگرام کیے۔
ناروے میں اردو کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ زبان بولنے والے ہیں،تب تک اردو ہے۔ مگر نئی نسل یہ زبان نہیں پڑھ رہی۔اب اسکا اسکرپٹ رومن زبان میں کرنا پڑے گا۔یہ لوگ ایک آواز کے لیے چار حروف کا فرق نہیں سمجھ سکتے۔جیسے ت اور ط کا فرق نہیں معلوم اسی طرح س ص،اور ث کا فرق نہیں معلوم۔اس کے لیے ایک حرف کا اصول بنانا چاہیے پھر یہ زبان سیکھنا آسان ہو گی۔

معروف اردو نارویجن پنجابی شاعر مسعود منورسے گفتگو“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں