وسیم ساحل
منظر اتنا بھیا نک اور خو فنا ک تھا کہ اسے دیکھ کر میری ٹانگیں کا نپنے لگیں۔ میں اگر قبر ستان کے گر د بنی ہوئی لو ہے کی جا لیاں نہ تھام لیتا، تو زمین پر میرا گرا جانا یقینی تھا۔ ایک تو ملگجی روشنی جس میں اندھیرے کا عنصر غالب تھا، دوسرے رات بھر کی چھا ئی ہو ئی دھند کی تہ جس نے زمین کے اوپر چادر سی تان رکھی تھی۔ سب سے بڑھ کر قبر ستان کی ویرانی!ان سب نے ما حول پر اسرا ربنا دیا تھا۔ نجانے ہم لو گ قبروں اور قبر ستانوں سے کیوں ڈرتے ہیں حالانکہ ایک نہ ایک روز ہمیں یہیں آنا ہے۔ خیر اس دھند اور نیم روشنی میں جب میری نظراس لا ش نما چیز پر پڑی، تو میری ٹانگیں کا نپ گئیں۔ دو جسیم کتے اسے بھنبھوڑنے کے لے آپس میں لڑ رہے تھے۔ یہ منظر میں نے والدین اور دیگر مدفون اعز ا کے لیے فا تحہ پڑھنے کے بعد دیکھا۔
میں عام دنوں میں فجر کی نما ز پڑ ھ کر ہا تھ میں تسبیح لیے ور د کر تا ہوا باغ کی طر ف جایا کرتا تاکہ سیر کے بعد دن بھر تر و تا زہ رہوں اور اپنے فرائض صحیح ادا کر سکوں مگر ہر جمعہ کی صبح فاتحہ خوانی کے لیے قبر ستان آنا میرا معمول تھا۔ اسی معمول کے مطابق اس روز جب میں دعا کے بعد اپنے ہا تھ منہ پر پھیر کر پلٹنے لگا، تو انگلیوں کی جھری میں سے مجھے وہ خوفنا ک منظر نظر آیا۔ جتنی دیر میں میرا بری طر ح بھڑکتا دل معمول پر آیا اتنے میں اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی اتنی ہو گئی کہ دھند نما غبار کی تہ کے با وجود بیس پچیس میٹر تک کا منظر صاف نظر آنے لگا۔ میں ابھی سو چ ہی رہا تھا کہ کیا کر وں کہ اتنے میں ایک اور صاحب میرے قریب سے گزرے۔ میں نے انہیں پہچان لیا، یہ بٹ صاحب تھے جو عموماً صبح کی سیر کے دوران باغ میں مل جا یا کرتے۔ میں نے انہیں آوا ز دی : ” بٹ صاحب ! ذرا با ت سنئیے۔ “وہ میرے قریب آئے اور حیرت سے بولے ” ارے ندیم صاحب ! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟آپ کا رنگ زرد ہو رہا ہے۔ “ میں نے پیشانی سے پسینہ پو نچھ کر ان کا بازو مضبو طی سے تھاما اور اس کفن پو ش لا ش کی طر ف اشارہ کیا۔ بٹ صاحب بھی یہ منظر دیکھ کر بری طر ح گھبرائے مگر ایک دوسرے کے سہارے ہماری ہمت بندھی۔ ہم دونوں قدم بہ قدم لا ش کی طر ف بڑھے۔ ہمیں اپنی طر ف آتا دیکھ کر کتے غرائے مگر بٹ صاحب نے جب ہاتھ کی چھڑی ان کی طر ف گھمائی، تو وہ چند قدم پیچھے ہٹ گئے۔ ادھر میں نے ٹوٹی ہوئی اینٹ اٹھا کر کتوں کی طر ف پھینکی، تو وہ بھا گ گئے۔
ہم ددنوں مزید قریب جانے سے گھبرا رہے تھے کیو نکہ کتوں نے پا ﺅں کیطر سے کفن کے چیتھڑے اڑا دیے تھے اور میت کے پا ﺅں ننگے ہو چکے تھے۔ ابھی ہم اسی سو چ میں مبتلا تھے کہ گو رکن ہا تھ میں پھا وڑا لیے ہما رے پا س آ کھڑا ہو ا۔ ” یہ کس کی لا ش ہے بھائی ؟“بٹ صاحب نے گور کن سے پوچھا۔ پیشتر اس کے وہ جوا ب دیتا، نا گہاں میری نظر ایک قبر پر پڑی۔ اس کی ساری مٹی باہر نکلی ہوئی تھی یہاں تک کہ سیمنٹ کی وہ سلیں جو لحد کو بند کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، خاصی وزنی ہونے کے با وجود کھدی ہوئی قبر کے باہرپڑی تھیں۔ ” بٹ صاحب ! یہ قبر تو ابھی پر سوں ہی آبا د ہوئی تھی۔ “ میں نے حیر ت سے کہا۔ ” کیا مطب ؟ “” ہاں یہی قبر ہے جس میں میرے پڑو سی، بچپن اور جوانی کے دوست عدنان کو بروز بدھ دفن کیا گیا تھا۔ “
گو رکن کے آجانے سے ہمارے حوصلے بڑھے اور ہم تینوں آگے چلے۔ گو رکن نے غیر یقینی اند از میں پہلے ادھڑی ہوئی قبر اور میت کو دیکھا پھر ہمت کر کے میت کاچہر ہ دیکھا۔ اگر بٹ صاحب نہ ہو تے تو، میں یقینا بے ہو ش ہو جا تا۔ میت کی آنکھیںابل کر حلقوں سے با ہر آچکی تھیں، منہ سور کی تھوتھنی کی طر ح آگے کو نکلا ہو ا تھا۔ رنگ کو ئلے کی طرح سیا ہ ہو چکا تھا، دانت باہر کی طر ف نکلے ہوئے تھے۔ اگر میں اس کی پیشانی کا آتش زدہ نشا ن نہ دیکھتا، تو کبھی یقین نہ کر تا کہ یہ عدنا ن ہی کی لا ش ہے۔
بٹ صاحب اونچی آوا ز میں استغفار پڑھنے لگے اور ساتھ ساتھ مجھے حوصلہ دینے کے لیے تھپکیاں دیتے رہے۔ گورگن نے جلدی سے میت کا منہ ڈھا نپ کر باندھا، پا ﺅں کی طرف کا کفن صحیح کیا او ر پو چھا ” باﺅ جی ! میرے لیے کیا حکم ہے ؟“ بٹ صاحب میرا اور میں نے اُن کا منہ تکنے لگا۔ آخر بٹ صاحب بولے ” مہر بانی کر واور اسے دو بارہ لحد میں اتار دو۔“ ” اچھا جی !“ گور کن نے جوا ب دیا اور ساتھ ہی قبرستان کے ایک کونے میں بنی اپنی کوٹھڑی کی طر ف رخ کر کے کسی کو آوا ز دی۔ چا ر پا نچ منٹ بعد دو نو جو ان نمو دار ہوئے جو شا ید گورکن کے بیٹے تھے۔ ان تینوں نے مل کر میت اٹھائی، اسی ادھڑی ہوئی قبر میں لٹا کر سلیں جما ئیں اور مٹی ڈال دی۔ اس سار ے عمل میں آدھ گھنٹہ صر ف ہو گیا۔ میں نے جیب میں ہا تھ ڈالا۔ سو سو کے دو نو ٹ نکالے گورکن کو دیے اور کہا ” فی الحال میرے پا س یہی ہیں۔ میں دوپہر تک مزید دو سو روپے تمہیں دے جا ﺅں گا۔ “ اب ہم دونوں محلے دار ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے تھکے تھکے قدموں سے واپس مڑے۔ اس روز میں صدمے کے باعث دفتر بھی نہیں جا سکا اور فون پر اپنے نہ آنے کی اطلا ع کر دی۔ میری امی اور بیگم نے میری حالت غیر دیکھی، تو پریشان ہو گئیں۔ تھوڑی دیر بعد جب میں مکمل ہو ش و حوا س میں آیا، تو میں نے بدھ کے روز عدنان کی تدفین میں پیش آنے والے خوفنا ک واقعہ تفصیل سے بتایا، تو امی حیرت زدہ رہ گئیں اور بولیں ” تم نے پہلے مجھے بتایا ہی نہیں؟“ اللہ تعالیٰ عدنان کے گناہ معاف فرمائے۔ دیکھ بیٹا !اس مرحوم نے زندگی بھر ماں کی نا فرمانی کی اور اس کی نا فرمانی ہی کی وجہ سے اسے قبر نے قبول کر نے سے انکا ر کر دیا۔ “امی کا شکو ہ بجا تھا لیکن میں نے پوری بات یوں نہ کی کہ مبا دا ضعیفی کی وجہ سے ان کی طبیعت خرا ب ہو جائے۔ امی نے دبے لہجے میں مجھے مرحوم کی مغفرت کے سلسلے میں مسجد کے امام صاحب سے ملنے کوکہا ۔
Waseem Haider