رضوان بھائی بھی کمال کرتے ہیں ۔۔ ہوا یوں کہ گھر سے بھابی کا فون آیا کہ آج گڑیا کا دل چاہ رہا ہے چکن تکہ کھانے کا ۔ آج ہم نے کچھ نہیں پکایا ۔۔ آپ آفس سے آتے ہوئے بوٹ بیسن سے ہمارے پسندیدہ ہوٹل سے گرین چکن تکّے لیتے آئیے گا ۔۔ ہم یہاں کورنگی کے ہوٹل کے تکّے نہیں کھائیں گے ۔
رضوان بھائی آفس سے نکلے تو موٹر سائیکل کا رخ بوٹ بیسن کی طرف تھا ۔ وہ اپنی بیٹی گڑیا کی کوئی فرمائش نہیں ٹالتے تھے ۔۔ چاہے مالی حالات جس قسم کے بھی ہوں ۔۔ تنخواہ بمشکل پوری ہورہی ہو ۔ آخری تاریخوں میں آفس سے ایڈوانس اٹھاکے گھر چلانا پڑتا ہو ۔۔ مگر گڑیا کا کہا نہ ٹالا جاتا چونکہ گڑیا اب دو مہینے کی مہمان تھی ۔ اس کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی اور پھر وہ رضوان بھائی کی اکلوتی اولاد تھی ۔ ان کی جان تھی ۔۔ ان کا سب کچھ تھی ۔ وہ اپنا اور اپنی بیوی کا تو من مارسکتے تھے ۔ خواہشیں، دل کے ارمان دباسکتے تھے ۔ مگر گڑیا کی بات ٹالنا ناممکن تھا ۔
ہوٹل پہنچ کر انہوں نے جیب سے وولٹ نکالا ۔۔ پیسے پر ایک نظر ڈالی ۔۔ سوچا تین تکّے اور تین چار پراٹھے تو آرام سے آجائیں گے ۔ پیمنٹ کرکے کھانا پیک کرایا اور موٹر سائیکل اسٹارٹ کی کہ برابر میں کھڑے ایک موٹر سائیکل والے نے ان کے ٹائر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
” بھائی تمہارا ٹائر پنکچر ہے ”
رضوان بھائی کا رنگ اڑ گیا ۔ الٰہی خیر ! جیب میں تو اتنے پیسے بھی نہیں ۔ وہ موٹر سائیکل قریب ہی پٹرول پمپ تک چلا کے لے گئے ۔ پنکچر والے نے دیکھ کے کہا ۔۔ ہوا کم ہے ۔۔ ہوا بھر والو ۔۔ پنکچر نہیں ۔ رضوان بھائی نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا ۔ ٹائر میں ہوا بھر کے جب پٹرول پمپ سے نکلنے لگے تو اچانک فٹ پات پر بیٹھے ایک بوڑھے شخص پر نظر پڑی ۔ نظر ملتے ہی وہ بوڑھے نے سوال کیا ۔۔ ” بیٹا ! صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔ ایک روٹی اللہ کے نام ”
رضوان بھائی نے اسے “معاف کرو بابا ” کہا اور موٹر سائیکل آگے بڑھائی ۔۔ ابھی تھوڑا ہی آگے گئے تھے کہ کسی خیال کے ذہن میں آتے ہی انہوں نے بریک لگائی ۔ ان کی نظروں کے آگے اس بوڑھے کا چہرہ گھومنے لگا ۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں ۔ ہونٹ پھٹے ہوئے ۔۔ بے ترتیب ڈارھی ۔۔ کپکپاتے ہاتھ ۔۔ میلے کچیلے کپڑے ۔۔ کہیں وہ واقعی صبح سے بھوکا نہ ہو ۔۔ ہوسکتا ہے وہ سچ بول رہا ہو ۔ اس خیال کے آتے ہی انہوں نے موٹر سائیکل کو واپس پٹرول پمپ کی طرف موڑا ۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنےہوٹل کے پیک کیے گئے تھیلے میں سے ایک تکّہ اور ایک پراٹھا بوڑھے کو نکال کے دیا ۔ بوڑھےکی آنکھوں میں عجیب سی چمک آئی اور وہ تکّے کی طرف لپکا اور پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکے دعائیں دینے لگا ۔ رضوان بھائی نے گھر کی راہ پکڑی ۔۔ راستے میں وہ سوچنے لگے کہ بیگم اور گڑیا دونوں یہ سوال ضرور کریں گی کہ تین افراد کے لیے دو تکّے کیوں ۔۔ کیا پیسے کم پڑ گئے تھے ۔ مجھے یقینا پہلے سے ہی کوئی بہانہ بنانا پڑے گا ورنہ وہ دونوں بھی نہیں کھائیں گی ۔ پھر کچھ سوچ کے انہوں نے اپنے آپ سے کہا ۔ ” ہاں یہ ٹھیک ہے کہ میں جاتے ہی پیٹ پکڑ لوں گا کہ میرے پیٹ میں شدید درد ہے ۔ میں کچھ نہیں کھائوں گا ۔ میں نے آپ دونوں کے لیے ہی کھانا لیا ہے ۔ یہ ٹھیک رہے گا ۔ انہوں نے اپنے آپ سے کہا ۔۔ پھر آسمان طرف دیکھ کے کہا ۔
” مالک ! جھوٹ بولنے جارہا ہوں ۔ مجھےمعاف کرنا ۔
hmm khani to achi hai magar jhoot kuch zyada acha nhi ..jhoot hi bolna tha to koi acha sa bolna chahiyai tha bahar hal on the whole achii koshish hai.
khushbakht jehan