ملک میں ڈسپلن قائم کرنے کا طریقہ


کالم نگار قاضی ضیاء الدین

zia 1
ایک بادشاہ کاگزر ایک جنگل سے ہوا اس نے دیکھا کہ ایک شخص جنگل میں خچروں کی ایک قطار کو ہانک رہا تھا۔خچر بالکل سیدھی قطار میں جا رہے تھے۔بادشا ہ خچروں کی اس قطار سے بہت متاثر ہوا۔خچروں کے مالک سے پوچھا کہ تم انہیں سیدھی قطار میں کیسے چلا رہے ہو۔خچر بان نے جواب دیا میں انہیں اپنی چھڑی سے کنٹرول کرتا ہوں جب بھی کوئی خچر قطار سے باہر نکلتا ہے میں اسے چھڑی مارتا ہوں وہ اندر ہو جاتا ہے۔اس طرح یہ سیدھی لائن میں چلتے ہیں۔بادشاہ اس کے کنٹرول پر خوش ہوا اور اسے اپنا وزیر بنانے کی پیشکش کر دی ۔بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم انسانوں کو بھی اسی طرح کنٹرول کر سکتے ہو۔خچر بان نے اثبات میں جواب دیا۔
خچر بان نے دربار میں اپنی وزیر کی سیٹ سنبھالی۔اس کے پاس ایک معاملہ لایا گیا۔یہ ایک چوری کا معاملہ تھا۔وزیر نے چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔دربار میں موجود ایک مصاحب نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی کہ یہ تو ایک امیر شخص کا رشتہ دار ہے لہٰذا اسے کے ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزا نہ دی جائے۔ہم بادشاہ سے سفارش کرتے ہیں۔بادشاہ نے یہ بات وزیر سے کہی اور پوچھا اب بتاؤتم کیا کہتے ہو؟
وزیر نے کہا سفارش کرنے والے کی زبان اور سفارش سننے والے کے کان کاٹ دیے جائیں۔بادشاہ یہ سن کر حیران ہوا ۔۔استفار کیا تو وزیر نے کہا اس لیے کہ آج چور کے ہاتھ اور سفارش کرنے والے کی زبان اور سننے والے کے کان کاٹ دیے جائیں گے تو آئندہ کوئی ایسی جرآت نہیں کرے گا۔ملک میں ڈسپلن اسی طرح قائم ہو گا۔
درحقیقت آج ہمیں بھی ایسے ہی ڈسپلن اور قانون کی ضرورت ہ جس میں کسی مجرم کی کوئی سفارش قبول نہ کی جائے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔یہ نہیں کہ ملک کے حکمران تو احتساب سے مثتثنیٰ اور قانون غرباء اور کمزور لوگوں کے لیے۔اگر آج ملک میں قانون کی بالا دستی ہو ہر مجرم کو اس کے رتبے سے بالا تر ہو کر سزا ملے تو ملک میں امن امان اور ڈسپلن قائم ہو جائے مگر ایسا ہونا ایک امر محال ہے ۔اس لیے کہ نہ صرف حکمران بلکہ عوام بھی قانون شکنی کا مرتکب ہوتے ہیں۔اگر کسی غلط بات کی نشاندہی کی جائے تو بجائے غلطی ماننے کے الٹا دوسروں پر الزام دھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔حکمرانوں کو چور اچکے اور بے ایمان کہنے والے عوام خود اپنے آپ کو تو دیکھیں کہ وہ کس حد تک اپنے فرائض سے مخلص ہیں؟؟جب تک چھابڑی فروشوں سے لے کر حکمرانوں اور سیاستدانوں تک سب ضمیر فروش اور ایمان فروش ہیں۔جب تک عوام کے اندر اپنے دین اور قوم سے اصولوں سے سچی محبت نہیں ہو گی ملک کے حالات نہیں بدلیں گے۔یہ جتنی ترقی یافتہ مہذب قومیں اس وقت نظر آ رہی ہیں ان میں بھی ڈسپلن کی بڑی وجہ قانون کی بالا دستی ہے یہاں حکمران بادشاہ وزیر سب کے لیے ایک قانون ہے۔پچھلے دنوں اسپین کی ایک شہزادی کو اس کے شاہی اعزاز سے بد دیانتی کی وجہ سے محروم کر دیا گیا تھا۔اس وقت انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اسکا تعلق شاہی خاندان سے ہے اسے چھوڑ دو نہیں قانون سب کے لیے ایک ہے۔ہمارے ہاں کیا ہے کہ اگر کسی برائی کی نشاندہی کی جائے تو سننے والا بجائے اسکے تدارک کا طریقہ سوچنے کے ۔نشاندہی کرنے والے کے پیچھے لٹھ اٹھا کر دوڑ پڑتا ہے۔ اس لیے کہ یہاں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون ہے۔ایسے رویوں کی وجہ سے آج اقوام عالم میں ہمارے ملک کے سیاستدان اور عام لوگ بلیک لسٹ ہو چکے ہیں انہیں کوئی بھی خوشی سے قبول نہیں کرتا حتیٰ کہ غیر مسلم تو دور کی بات ہے ہمارے مسلمان ممالک بھی نہیں۔اس لیے ہم سب کو مل کر کچھ سوچنا ہو گا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ۔کیا یہ وہی راستہ ہے جس کی تلقین ہمارا مذہب کرتا ہے۔جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے؟؟ یا پھر وہ راستہ ہے جس پہ چلنے والوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا غضب نازل ہوا؟؟ذرا سو چیے۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں