Selected by Tahir Ashraf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الصلوٰۃ
والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کا فرمان رحمت ہے،کہ
سَیَکُونُ فِی أُمَّتِی اخْتِلَافٌ وَفُرْقَۃٌ، قَوْمٌ یُحْسِنُونَ الْقِیلَ، وَیُسِیءُونَ الْفِعْلَ، یَقْرَءُ ونَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ، یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَہُ مَعَ صَلَاتِہِمْ، وَصِیَامَہُ مَعَ صِیَامِہِمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ مُرُوقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، ثُمَّ لَا یَرْجِعُونَ حَتَّی یَرْتَدّ عَلَی فُوقِہِ، ہُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِیقَۃِ، طُوبَی لِمَنْ قَتَلَہُمْ وَقَتَلُوہُ، یَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اللہِ، وَلَیْسُوا مِنْہُ فِی شَیْءٍ ، مَنْ قَاتَلَہُمْ کَانَ أَوْلَی بِاللہِ مِنْہُمْ قَالُوا یَا رَسُولَ اللہِ، مَا سِیمَاہُمْ؟… قَال التَّحْلِیقُ:
یعنی عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ بازی ہوگی، اور ان میں سے ایک قوم ایسی نکلے گی جو قرآن پڑھتی ہوگی لیکن وہ اس کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، تم ان کی نمازوں کے آگے اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے آگے اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے، وہ لوگ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، جس طرح تیر اپنی کمان میں کبھی واپس نہیں آسکتا یہ لوگ بھی دین میں کبھی واپس نہ آئیں گے، یہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے، اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو انہیں قتل کرے اور وہ اسے قتل کریں ، وہ کتاب اللہ کی دعوت دیتے ہوں گے لیکن ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، جو ان سے قتال کرے گا وہ اللہ کے اتنا قریب ہوجائے گا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی علامت کیا ہوگی؟… تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی علامت سر منڈوانا ہوگا۔
(مسنداحمدبن حنبل۔رقم الحدیث13338- ۔جزء21۔صفحہ51۔مکتبۃالشاملۃ)
مذکورہ حدیث کریمۃ ،بیان حقیقت ہے ،ان لوگوں کے بارے میں ،جوآداب رسالت اور تعظیم وتوقیر رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں یوں جان لیجئے،کہ یہ لوگ ایمان بالرسالت کے بغیر ہی اپنے زعم فاسدمیں مومن بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں،جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ،یعنی بدیہی بات ہے،کہ ایمان کاتو مدارہی ،ایمان بالرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر موقوف ہے ۔
یہ بات لمحہ فکریہ ہے،کہ قرآن کریم میں تو ارشاد باری تعالیٰ ہے،کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ ،لیکن باوجود اس پیغام باری تعالیٰ کے ، ایسی کونسی وجہ ہے،کہ یہ لوگ اسلام میں پورے پورے داخل نہیں ہوتے ؟….آخر کیا وجہ ہے،کہ یہ احکاماتِ قرآن کریم کی خلاف ورزی پر جری(جرتمند) ہوجاتے ہیں؟….
آخر کیا وجہ ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے پرعمل پیرا نہیں ہوتے ؟…. جبکہ شریعت مطہرۃ نے تو آداب رسالت کے تمام طرق واضح فرمادئے ہیں،کہ جس کو اختیار کیے جانے کے سبب، قلب مومن میں ، تعظیم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم راسخ ہونے میں کچھ تردد (شک)باقی نہیں رہتا ۔
بعدغوروتفکر اسی نتیجہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے،کہ چونکہ بلاشبہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات طیبہ ہمارے لئے اسوۃ حسنۃ ومشعل راہ ہے،کہ بلاشبہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی میں ہی دونوں جہاں کی عافیت ہے ،بصورت دیگر تعلیمات شرعیہ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس سے انحراف ،یقیناًگمراہی کا سبب ہے،اوراسی کے ارتکاب کے سبب بدمذہب ،احکامات شرع کی خلاف ورزی پر جری ہوجاتے ہیں ۔حالانکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ،تو ایسی عظیم البرکت بارگاہ ہے،کہ جوبارگاہ رب العلیٰ میں اعلیٰ وبالاشرف مقبولیت کی حامل ہے ،یہی وجہ ہے،کہ اللہ تعالیٰ نے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیاہے۔جیساکہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،کہ
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا:یعنی جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کی اطاعت کی،تو اس نے اللہ تعالیٰ(ہی) کی اطاعت کی اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ (سورۃ النساء آیت نمبر80)
مذکورہ آیت کریمہ سے واضح ہوا،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری درحقیقتا،اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت وفرمانبرداری ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی میں ہی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے ،تو اگر کوئی شخص ،جناب احمد مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر بجالاتاہے،تو درحقیقت ،وہ اللہ تعالیٰ ہی کی رضا وخوشنودی کو حاصل کرتا ہے اور یہی اصل ایمان ہے ،کہ جان ایمان ،روح کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہادرجے کا تعلق وعشق ومحبت قائم کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب واحترام کو ملحوظ رکھاجائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہا تعظیم وتوقیر و اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزاردی جائے ۔