حدِادب
انوار حسین حقی
_______________
میانوالی سے چشمہ بیراج کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے سفر کریں تو چشمہ سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ” بلوٹ شریف” کا قصبہ ہے۔یہاں حضرت شاہ عیسیٰ کے مزار کے ساتھ دیگر بزرگان ِ دین کے مزارات بھی مرجع عام و خواص ہیں۔بلوٹ شریف سے ایک کلو میٹر پہلے شمال کی جانب مڑتی ہوئی چھوٹی سڑک ” تھلہ ستی کیول رام ” پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔تھلہ ستی کیول رام ہندوؤں کے لئے ایک مقدس مقام کا درجہ رکھتا ہے۔یہ ایک ہندو بزرگ کیول رام کی سمادھی ہے۔ستی کیول رام کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ چار سو سال قبل ڈیرہ غازی خان سے بلوٹ شریف کے علاقے میں آئے تھے جہاںانہوں نے پیپل کے ایک درخت کے نیچے قیام کیا تھا۔روایت یہی کہ کیول رام اپنے دھرم کے برگزیدہ بندوں میں شامل تھا۔وہ ایک طویل عرصہ اس علاقے میں رہا۔اس کا انتقال ہوا تو اس کی سمادھی یہیں پر بنا دی گئی اور اس مندر نما جگہ کو ” تھلہ ستی کیول رام ” کا نام دیا گیا۔یہاں ملک بھر باالخصوص سندھ اور بلو چستان سے بڑی تعداد میں ہندو یاتری پوجا پاٹ کے لئے آتے ہیں ، منتیں مانتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ایک مخصوص تعداد میںاس سمادھی پر یاترا کے لئے آتے ہیں۔بیساکھی کے دنوں میں بلوٹ شریف کے ارد گرد کے علاقوں سمیت دور دراز کے علاقوں سے آسیب زدہ مسلمان خواتین بڑی تعداد میں یہاں آتی ہیں ۔ تھلہ کیول رام کے احاطے میںڈھول بجتا ہے گیت گائے جاتے ہیںاور پھر یہ خواتین حال اور دھمال ڈالتی ہیں۔مقامی زبان میں اس عمل کو ” جنات کا کھیلنا ” کہا جاتا ہے۔لوگ کہتے ہیں جو آسیب زدہ خاتون بیساکھی کے دنوں میں یہاں آ کر دھمال ڈالے وہ سار ا سال آسیب اور جنات سے محفوظ رہتی ہے۔
ہندووں کی اس عبادت گاہ کے سجادہ نشین ”سائیں شام سندر” کینڈا میں رہائش پذیر ہیں۔چند سال پہلے تک وہ باقاعدگی سے یہاںآتے تھے۔ لیکن اب وہ امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے پاکستان نہیں آئے۔ستی کیول رام کی سمادھی کا متولی رمضان نامی ایک مسلمان شخص ہے۔ رمضان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے وہ واپڈا میں ملازم تھا کہ اپنے والد کی وفات کے بعد واپڈا کی ملازمت چھوڑ کر یہاں کا متولی بن گیا ۔
مجھے کئی مرتبہ مطالعاتی دورے کے سلسلہ میں اس ”سمادھی ” پر جانے کا موقع ملا ۔اور ہمیشہ وہاں مسلمانوں کی موجودگی پر حیرانی ہوئی۔ڈیرہ اسماعیل خان اور گرد و نواح کے اکثر لوگ یہاں کی بیساکھی کی تقریبات کو میلے اور تفریح کا نام دیتے ہیں۔اور مسلمان خواتین کی طرف سے یہاں دھمال ڈالنے کو معمولی بات قرار دینے سے سَوا کچھ سوچنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔اس میں ان لوگوں کا بھی شاید کوئی قصور نہیں ہے شاید ان لوگوں کو کبھی کسی نے یہ سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کی کہ مذہب اور ثقافت ایک دوسرے پر نہ صرف اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے اثر پذیر بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تومذہب اور ثقافت کو دو الگ الگ تہذیبی دائروں کے طور پر زیر بحث لایا جاتا ہے۔ہمارے ہاں کا وہ طبقہ آج کل بہت آگے ہے۔جو اپنے مذہب بے زار رویے کی وجہ سے ثقافتی امور میںمذہب کے کردار کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔جہاں کہیں مذہب اور ثقافت کے رشتوں کی بات ہوتی ہے تو یہ طبقہ ہمیشہ مذہب کی تخویف اور ثقافت کی تعریف و توصیف کا اسلوب اختیار کر لیتا ہے۔ممتاز دانشور عطاء اللہ صدیقی کے بقول ایسے لوگ تناقضِ فکر میں مبتلاء ہیں۔ انہیں مذہب سے والہانہ وابستگی تو سخت ناگوار گذرتی ہے مگر ثقافت سے جنون کی حد تک لگاؤ پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
تھلہ ستی کیول رام پر منعقد ہونے والے بیساکھی کے میلے کی تقریبات میں مسلمان مردو خواتین کی باقاعدگی اور اہتمام کے ساتھ شرکت غو رو فکر کی متقاضی ہے۔میں نے وہاں کے ”مسلمان ” متولی رمضان سمیت بہت سے حاضرین سے سوال کیا کہ آپ لوگ یہاں کس لئے آتے ہیں تو ان لوگوں کا جواب تھا کہ ” ہمیں ہمارے بزرگوں نے بتایا ہے کہ ” کیول رام آخری دنوں میں مسلمان ہو گیا تھا اسلئے ہندواور مسلمان دونوں یہاں آتے ہیں۔”ان خیالات کے باوجود وہاں کا سارے کا سارا ماحول ہندووانہ ہے اور کسی ایسی چیز یا شے کا شائبہ تک نہیں ہوتا جس کا تعلق اسلام سے ہو۔
ایسی صورتحال میں اگر ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندو تہذیب میںمذہب اور کلچر آپس میں اس طرح مدغم(Sub merge ) دکھائی دیتے ہیں کہ شایدان کے ہاں مذہب اور ثقافت کے باہمی تعلق کا سوال ہی زیادہ اہم نہ ہو۔ہمارے ہاں جن باتوں کو خالصتاً کلچر یا ثقافت سمجھا جاتا ہے وہ ہندو معاشرے میں مذہبی جوش و خروش کے ساتھ انجام دئے جاتے ہیں۔
قارئین کرام :۔ اگر آپ میں سے کسی کو بھی اس علاقے میں جانے کا موقع ملے توہ بلوٹ شریف کے قریبی علاقے تھلہ کیول رام کی طر ف ضرور جائیں اور اپنے ان مسلمان بھائیوں کی حالت کا جائزہ لیںجو اپنی روز مرہ کی مشکلات کے ازالے کے لئے تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ایک ” آنجہانی ہندو” کی سمادھی پر اپنی خواتین کو لیجاتے ہیں جو وہاں ڈھول کی تھاپ پر تمام مردوں کے سامنے دھمال ڈالتی ہیں۔دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کی دعوت اسلئے غیر مسلموں میں غیر موئثر ہوگئی ہے کہ اس کے پیروکاروں کا کردار مثالی نہیں رہا۔مسلمانوں میں صالحین نظر نہیں آتے۔ اسلام ایک دینِ فطرت ہے اسلئے فطرت کی ہر تعمیر کا نتیجہ اسلام کی صورت میں ظاہر ہوگا۔مگر بدقسمتی سے پورے عالمِ اسلام میں اس حوالے سے کوئی سنجیدہ احساس نہیں پایا جاتا۔ایسے میں یہی دعا ہے کہ کاش مسلمان کا داعی اور دنیا سے مدعو کا رشتہ ایک مرتبہ پھر بحال ہو۔
( انوار حسین حقی)
فارسٹ کالونی سول لائنز
میانوالی
03007272001
nice articl
thanx