کون ہوگا، جو مشہور شاعر منور رانا کے نام سے واقف نہ ہو۔ جی ہاں! وہی منور رانا جن کی شاعری میں دنیا داری کی چہاردیواری سے گھری ایک ماں، کھل کر سانس لیتی ہے۔ وہی منور رانا، جن کے لیے جنت کا
راستہ کہیں آسمان کے اس پار سے نہیں، بلکہ ماں کے قدموں سے ہوکر گزرتا ہے۔ وہی منور رانا، جن کی پیشانی پر دنیا بھر کی ماوں نے دعاوں سے ان کا روشن مستقبل لکھا ہے۔ ان سے آشنا، نا آشنا دنیا کی ہر ماں ان کی شاعری سے منسوب ہے اور ان کی غزلوں میں دامن بھر بھر کر دعائیں لٹاتی ہوئی سی محسوس ہوتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، منور رانا کے قلم میں درد، محبت، ہجرت، دریا دریچہ، غربت کے ساتھ اور بھی نا جانے کتنے ہی موضوعات کو اپنی شاعری میں پناہ دی ہے۔ انہیں منور رانا ایک شاہکارمہاجرنامہ کو بھی دنیا نے سرآنکھوں پر رکھا۔
دراصل، اس اتوار مہاجرنامہ کی کامیابی کا جشن رانا صاحب کے چاہنے والوں کی گزارش پر منایا گیا۔ ان کے بہی خواہ چاہتے تھے کہ ایک دن مہاجر نامہ کی کامیابی کے نام کیا جائے اور اپنے چاہنے والوں کی بات کوئی شخص کیسے ٹال سکتا تھا لہذا رانا صاحب اجازت دیتے ہوئے اس کے لیے اتوار کا دن طے کیا۔ بس، پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ایک سادہ سا اتوار جشن میں تبدیل ہوگیا اور ادب کی تاریخ میں سنہرے اوراق پر درج ہوگیا ایک اتوار مہاجر نامہ کے نام-
ہندی اور اردو ادب کی زینت مشہور شاعر منور رانا نے لکھنومیں اپنے گھر سے سوشل میڈیا پر ایک شعر پوسٹ کرکیایک اتوار مہاجر نامہ کے نام کا آغاز
کیا۔ انہوں نے لکھا؛
مہاجرو!یہی تاریخ ہے مکانوں کی
بنانے والا ہمیشہ برامدوں میں رہا
اوریادگار ہوگیا دن
اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ کسی معجزہ سے کم نہیں تھا پورے دن سوشل میڈیا پر منور رانا ہی چھائے رہے۔ ٹوئٹر پر محض 14 گھنٹوں میں 41 ہزار603 لوگ مہاجر نامہ کے ٹوئٹس سے جڑ گئے، ایک لاکھ 45 ہزار 532 لوگوں نے ٹوئٹ کے ذریعے اس جشن میں شرکت کی۔ دن بھر ٹوئٹ اور فیس بک پرMuhajirNama اور # MunawwarRana ہیش ٹیکس اور منور رانا کی شاعری کا بول بالا رہا فیس بک پر سارا دن ہزاروں کیمنٹس اور لائکس کی بھر مار رہی۔ اس دوران لوگوں نے مہاجر نامہ میں شامل اشعار ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کے اور دن کو یاد گار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
چاہنے والوں کی محبت میں کیا مجبور
رانا صاحب نے خود تسلیم کیا کہ اس دور میں ایک دوسرے سے جڑنے کے لیے ٹکنالوجی واقعی ایک انقلابی ذریعہ ہے اور آپ تمام لوگوں کی محبت نے ہمیں اس سے جڑنے کے لیے مجبور کیا
ایک اندازہ کے مطابق سوشل میڈیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا، جب ایک گنگا جمنی تہذیب کا شاعر اپنے اشعار کے ذریعے سارا دن اپنے چاہنے والوں کے ذہن ودماغ میں مسکراتا رہا ہو۔ جن جن فالوورس کو مہاجر نامہ کا دو دو شعر، جہاں جہاں سے یاد آتا رہا وہ ساتھیوں کے ساتھ بانٹتا رہا اور یہ سلسلہ ایسا چلا کہ ایک کرشمہ بن گیا۔
یہ مہم آرگنائز کرنے والے منوررانا کے ویب اینڈ سوشل میڈیا آفشیل ریپرزینٹیٹو ضیا السلام(سافٹ ویئر اینجینئر، ممبئی) اور ان کی آئی . ٹی ایکسپرٹ ٹیم کی ان 24 گھنٹوں کی کوشش ایک یاد گار بن گئی۔ رانا صاحب نے ضیا السلام اور ان کی ٹیم کو اس کامیابی کے لیے مبارکباد دی۔
پوسٹ کیے گئے سبھی 500 اشعار
بس اتنی ہی نہیں، دیوانگی کی انتہا یہاں تک پہنچ گئی کہ رانا صاحب کے ایک دیوانے قادر منصوری نے تو فیس بک پر کمینٹ میں ایک ایک کرکے مہاجر نامہ کے سبھی 500 اشعار پوسٹ کردیے۔ بہر حال دیوانگی دیوانگی ہوتی ہے۔ کسی کی دیوانگی کو کم یا زیادہ کے پیمانے میں نہیں ناپا جا سکتا۔ ویسے اس پتھر ہوتے ہوئے دور میں کوئی مسکراکر کسی کا نام بھی لے لے تو بہت غنیمت ہے۔
خیر، قادر منصوری کے علاوہ تحسیر احمد،عطیہ زیدی، رعنا صفوی، عابد زیدی ، گورو شرما، آنند پانڈے، وجیندر شرما، بولاناتھ گپتا، شبینہ فراحی، عمرانہ ، مکتا راٹھور، مستجاب خان، سیف الاسلام کے ساتھ ساتھ اور بھی تمام شیدائی تھے جودم بدم اس مہم میں ہم قدم رہے۔
رکھے زمانہ ہمیں بھی یاد
ویسے تو بے حساب محبتوں کا بدلہ محض شکریہ کہہ کر ادا نہیں کیا جا سکتا لہذا منوررانا نے اپنی شاعری کے لاکھوں شیدائیوں کی نذر ایک شعر کیا۔ انہوں نے کہا کہ
ہم چاہتے ہیں، رکھے زمانہ ہمیں بھی یاد
غالب کے شعر، تلسی کی چوپائی کی طرح
کیا ہے مہاجر نامہ
دراصل مہاجر نامہ کی شروعات اپریل 2008 میں منور رانا کے پاکستان دورہ سے ہی ہوگئی تھی۔ جب رانا صاحب مشاعرہ پڑھنے فیروز پور گئے ہوئے تھے اور ریٹریٹ سیریمنی دیکھنے کے لیے ان کا حسینی والا سیما چوکی جانا ہوا۔ وہیں ہندوستان- پاکستان کی سرحد پر کھینچی آڑی ترچھی لکیروں سے مہاجروں کا درد رس رس کر باہر آیا۔ درد، ذہن و دل کی باریک رگوں سے ہوکر خیالوں میں ڈھلا اور پھر خیال حرف بن بن کر رفتہ رفتہ مہاجر نامہ میں ڈھل گئے۔ اسی طرف سے جس شعر نے آنکھیں کھولیں، اسے بھی پڑھتے چلیں
بچھڑنا اس کی خواہش تھی، نہ میری آرزو لیکن
ذرا سی ضد نے اس آنگن کا بٹوارا کرایا ہے
اسی سفر میں کراچی مشاعرہ کے دوران سندھ صوبے کے ساجد رضوی نے دو دن بعد ہونے والے سندھ مشاعرہ میں منوررانا سے شرکت کرنے کی التجا کی۔ گھٹنوں کی پریشانی کے سبب رانا صاحب نے انکار کردیا۔ وہ ضد پر اڑ گئے اور کہہ بیٹھے کہ یہاں جو نذرانہ آپ کو مل رہا ہے ہم آپ کو اس سے دو گنا دیں گے۔ بس یہی بات منور رانا کو ناگوار گزری اور اسی ناگواری نے اس وقت مشاعرہ میں بیٹھے ہی بیٹھے کچھ شعر لکھوالیے۔ اپنی باری آنے پر انہوں نے درد میں ڈوبے وہی تازہ اشعار رضوی صاحب کی نذر بھی کیے اور یہی سے مہاجر نامہ میں پہلا قدم بڑھایا۔ اسی کتاب کے کچھ اشعار پر نظر ڈالتے چلیں۔
اسی کتاب کے کچھ اشعار پر نظر ڈالتے چلیں
مہاجر ہیں، مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں،
تمہارے پاس جتنا ہے، ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
نئی نسلیں سنیں گی تو یقیں ان کو نہ آئے گا،
کہ ہم کیسی زمینیں اور زمانہ چھوڑ آئے ہیں
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں،
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں
یہ خوغرضی کا جذبہ آج تک ہم کو رلاتا ہے،
کہ ہم بیٹے تو لے آئے، بھتیجا چھوڑ آئے ہیں
عقیدت سے کلائی پر جو ایک بچی نے باندھی تھی،
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں، وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں
نہ جانے کتنے چہروں کو دھواں کر کے چلے آئے،