ہمارے ہاں یہ روایت عام سننے کو ملتی ہے کہ جمعرات کے روز مرنے والوں کی روحیں اپنے لواحقین کے گھروں میں آتی ہیں اس لئے جمعرات کو خیر و برکت کے لیے کھانا تقسیم کرنا چاہئے ۔اس بارے میں دین حکمت اسلام کیا کہتا ہے ،اس کا جواب ادارہ منہاج القرآن نے اپنی فتویٰ آن لائن ویب سائٹ پر ایک سائل کے سوال میں یوں دیا ہے کہ موت کے بعد کفار اور گنہگار لوگوں کی روحیں سجیین میں قید ہوتی ہیں اور انہیں کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں ہوتی، البتہ آثارِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آئمہ و علماء کے اقوال میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین اور صالحین کی ارواح موت کے بعد آزاد ہوتی ہیں اور باذنِ الٰہی جہاں چاہیں جاسکتی ہیں لیکن قرآنِ مجید و ذخیرہ حدیث میں اس سے متعلق کوئی آیت و روایت نہیں ملتی ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان ؒ نے ” روحوں کا بعداز وفات اپنے گھر آنا “ کے عنوان سے ایک رسالہ تحریر کیا تھا جس میں درج آثار و اقوال میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت سلمان فارسی اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا اگر تم مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا ۔
ہاں مسلمانوں کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں، انہیں اختیار ہوتا ہے جہاں چاہیں جائیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت۔ جب مسلمان مرتا ہے، اس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے“
شیخ الاسلام ’کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء فصل ہشتم میں فرماتے ہیں کہغرائب اور خزانہ میں منقول ہے کہ مومنین کی روحیں ہر شب جمعہ، روز عید، روز عاشورہ، اور شب برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر روح غمناک بلند آواز سے ندا کرتی ہے کہ اے میرے گھر والو، اے میری اولاد، اے میرے قرابت دارو! صدقہ کرکے ہم پر مہربانی کرو۔
وہ مزید فرماتے ہیں کہ شرح الصدور میں شیخ جلال الدین سیوطی ؒ نے ان میں سے اکثر اوقات کے بارے میں مختلف حدیثیں نقل کی ہیں اگر چہ ضعف سے خالی نہیں ہیں۔ امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا کہ راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ا ور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں۔قاضی ثناء اللہ تذکرة الموتی میں لکھتے ہیں کہاولیائے کرام قدست اسرارہم کی روحیں زمین آسمان، بہشت میں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔
بعض علماء محققین سے مروی ہے کہ روحیں شب جمعہ چھٹی پاتی اور پھیلتی جاتی ہیں، پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں۔بیشک مسلمانوں کی روحیں ہر روز و شب جمعہ اپنے گھر آتی اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دردناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو! اے میرے بچّو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقہ سے مہر کرو ، ہمیں یا د کرو بھول نہ جاؤ، ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ۔
موت کے بعد روح کا دنیا میں لوٹنا مابعد الطبیعات میں سے ہے اور ایسی غیر مرئی و غیر محسوس چیزوں کو تسلیم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح فرمان ہی تسلی بخش ہو سکتا ہے۔ چونکہ اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا۔ اس لیے متوفین کی ارواح کے اپنے گھر یا کسی جگہ لوٹنے کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا اور ارواح کے بِاذن الٰہی کہیں آنے جانے کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے اس مسئلہ میں کوئی ضابطہ متعین کرنا مشکل ہے۔