الیکٹرنک میڈیاکومودی کیساتھ بے قصوروں کی ماؤں کوبھی کوریج دینا چاہئے!
سمیع احمدقریشی،ممبئی۔9323986725
دنیاکاکون سامذہب ہے،تہذیب اورتمدّن ہے جو”ماں”کی اہمیت وافادیت سے انکارکرتی ہے۔بلاشبہ ماں لائق عزت وتکریم ہے۔ہم جتنی بھی جس قدربھی ماں کی عزت وتکریم کریں،پھربھی دودھ کاحق ادانہ کرپائیں گے۔جب ہم اپنی ماںکی عزت وتکریم کرتے ہیں تودوسروں کی ماں کی بھی عزت وتکریم بھی ہم پرلازم ہے۔یہ بات کہاں کی ہوئی کہ ہم دوسروں کی ماں کی عزت نہ کریں۔اپنے بچوں،اولاد،ماں اورباپ سے محبت ایک انتہائی اخلاقی فریضہ ہے۔جوہمیں پسندہے وہ دوسروں کیلئے بھی پسندکریں۔
حالیہ دنوں میں ملک کے وزیراعظم مودی کواپنی ماں سے محبت،پھرپارٹی کوبھی ماں سے تشبیہ دیتے ہوئے،میڈیامیں نمایاں دکھایاجارہاہے۔الیکشن ہوگیا،اب اس کے کیامعنی؟ماں سے محبت دکھلاکر،اب کس کے ووٹ لینے ہیں؟اس کاکیارازہے؟میڈیااورخاص کرالیکٹرنک میڈیانے جس طریقہ سے،منفی سوچ وفکرکے ساتھ،الیکشن میں،ملک کے انتہائی متنازعہ شخصیت نریندرمودی کومثبت سوچ وفکروعمل کاحامل بناکرپیش کیا۔اس سے میڈیاکے وجوداورمثبت سوچ وفکرپرسوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔انتہائی دھڑلے کے ساتھ،انتہائی شوروشرابہ کے ساتھ الیکٹرانک میڈیانے بی جے پی اورمودی کی حمایت میں حقائق کونظراندازکردیا۔عدل وانصاف،حق وصداقت ،معیاری سوچ وفکرکوکوڑے دان میں ڈال دیا۔یوں اپنی نمایاں غیرصحت مندحیثیت کوتاریخ میں ثبت کردی۔پورے ملک کے عوام کوگجرات کے ماڈل کے نام پر،مودی کوکامیاب بنانے کیلئے جتن کئے گئے۔ترقی کاماڈل جوگجرات میں بتلایاجارہاتھا،ترقی کے نام پرملک کے متعددصوبے گجرات سے آگے ہیں پھرکیااس کوترقی کہتے ہیں؟جہاں مذہب کے نام پر٢٠٠٢میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔کتنی ہی ماؤں کے سہارے چھین لئے،کتنی ہی اولادوں نے اپنی ماؤں کوکھویا۔آج بھی لاتعدادسینکڑوں مائیں بے یارمددگار،بے سہاراہوکردربدربھٹک رہی ہیں۔یہ درگت کس نے بنائی۔کتنی ہی ماؤں کے لالوں کوجھوٹے الزامات میں جیلوں میں ڈالاگیا۔مودی کے گجرات میں جھوٹے الزامات میں پولس نے معصوم بے گناہ مسلمانوں کاپولس نے انکاؤنٹرکیا۔کیایہ ماؤں کے لعل نہیں تھے۔یہاں مودی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری لے رہے تھے ادھراکثردھام مندرپرحملے کے الزام میں گجرات عدالت سے پھانسی کی اوردیگرسزاپانے والے متعدد،بے قصور،معصوم مسلمان ،ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے باعزت بری ہورہے تھے۔ان لوگوں نے پولس حراست میں بے انتہاظلم وستم سہا۔ان کے بچوں نے،رشتہ داروں نے ظلم سہاکیایہ ماؤں کی اولادنہیں ہیں۔میڈیامودی کی اپنی ماں سے محبت نمایاں کرکے دکھاتی ہے ۔مودی کے راج میں،مودی کے اشارے پر،اس کے وزرائ اسکی سرکاری مشنری اورپولس نے جوبربریت دکھائی۔ماؤں کے جسم ہی نہیں ان کی آتماکوتکلیف ہوئی۔اسے الیکٹرانک میڈیاواضح طورپرکیوں نہیں دکھلاتا۔
میڈیاجمہوریت کاایک انتہائی اہم ستون ہے۔اسے عدل وانصاف،حق وصداقت اورمساوات کاطرفداراوراسے ایک شفاف آئینہ کی طرح ہوناضروری ہے۔جس میں تصویرصاف نظرآئیں۔جہاں حکومت وقت کواسے معیاری راہ عمل دکھلاناہے۔غیرجانبدارہوکراسکی کارگزاری کااحتساب کرتاہے۔نیزعوام الناس کوبھی معاشرہ،سماج کی تعمیروبقائ کیلئے راہ عمل دکھلاتاہے۔مودی اوران کے گجرات کے نام نہادترقی کو،الیکٹرانک میڈیانے نظراندازکردیا۔غیرجانبداری ضروری تھی اسے بھلادیا۔جس لیڈرکاماضی اورحال انتہائی غیرمعیاری ہو،جہاں حق وانصاف،عدل ومساوات کاخون ہی خون ہو۔جس کے ظلم وستم جبرواستبدادکی ایک لمبی خونی داستان ہو۔ایسے غیرمعیاری فرد،سیاسی پارٹیاں،مکروفریب ،جھوٹ کی بنیادپرملک کے نگہبان حکمراں بننے جارہے ہو۔ایسے میں میڈیاکارول انتہائی اہمیت کاحامل بن جاتاہے۔اس قدرمیڈیاکی جانبداری،غیرمعیاری پن کے باوجودمودی کی پارٹی بی جے پی کو٣١فیصدووٹ ملے۔یعنی تقریباً١٠لوگوں میں سے ٣لوگوں نے ووٹ دیا۔ووٹ بٹ گئے۔ورنہ یوں آرایس ایس کے نورنظرمودی اوربی جے پی سرکارنہ بناپاتے۔سیکولرپارٹیوں میں اتحادضروری تھا۔افسوسناک پہلوہے کہ یہ تمام پارٹیاں مسلمانوں کومتحدہوکرصرف ان کوووٹ دینے کی بات کررہی تھیں۔کاش کہ وہ خودمتحدہوکرمودی اوربی جے پی کے خلاف میدان میں ہوتیں۔ہندوتواوادی بی جے پی،شیوسینا،بجرنگ دل،وشوہندوپریشدوغیرہ ایک تھیں۔مگرافسوس سیکولرپارٹیاں متحدنہ ہوکر،الگ الگ بی جے پی کے خلاف لڑرہی تھیں۔نتائج بتلاتے ہیں کہ کم ووٹ لیکربی جے پی نے مرکزمیں سرکاربنالی ہے۔شکرہے ملک کی اکثریت کثرت میںوحدت اورسیکولرازم پررواں دواں ہے۔افسوس ہے کہ مرکزمیں بی جے پی آئی ہے مگرمایوسی ہرگزنہیں۔
اب میڈیامودی کے تعلق سے جوخبریں تبصرے پلانٹ کررہاہے۔منصوبہ بن طریقہ سے کیاجارہاہے تاکہ ہندوتواوادیوں کابھیانک ماضی اورانکے غیرمعیاری عزائم پرمضبوط پردے پڑجائیں۔ایک مودی اوران کی ماں کوباربارٹی وی پرپیش کیاجارہاہے۔ماں کسی کی بھی ہوقابل احترام ہی ہے۔میڈیامودی کی ماں کی ممتاکومتواترپیش کررہاہے۔سوال یہ ہے کہ ان ماؤں کی حالت زارکوپیش نہیں کیاجاتاجوآزادی کے بعدسے اب تک فرقہ واریت سے انتہائی خون آلودزک اٹھاچکی ہے۔اس ماں کی ممتاکوکیوں نہیں پیش کیاجاتا۔برسہابرس پہلے مرادآبادمیں مسلم بچے نمازعیدپڑھنے عیدگاہ میںگئے۔فرقہ واریت کاشکارہوئے،شہیدہوگئے۔مائیں راستہ دیکھ رہی تھی کہ ان کے لعل نمازپڑھ کرمسجدسے آئیں گے۔انہیں عیدی دی جائے گی۔وہ معصوم بچے تونہ آئے۔بدنصیبی سے فرقہ واریت کی آگ میں ختم ہوگئے لاشیں آئیں۔ہاشم پورہ کوکون بھول سکتاہے جہاں پولس نے بڑی تعدادمیں مسلمانوں کودریاکنارے گولیوں سے بھون دیا۔آسام،گجرات،مظفرنگرمیں حال حال تک یہی ہوا۔عورت ہی سب سے زیادہ فسادکادکھ اٹھاتی ہے ۔کہیں وہ کسی کی بیوی ہے کسی کی بہن توکسی کی ماں ہے۔متعددفسادات کے بعدبٹھائے گئے سرکاری کمیشنوں نے فسادات میں جن سنگھ،بی جے پی،آرایس ایس جیسی پارٹیوں کے شامل ہونے کی بات کہیں۔مودی کی ماں کی ممتاانتہائی جوش وخروش کے ساتھ میڈیابتلارہاہے۔ہمیں خوشی ہے،اعتراض نہیں،مگرکیاہندوستانی الیکٹرانک میڈیاان بدنصیب ماؤں کی غم میں ڈوبی داستان اورممتاکوپیش کریگا۔جہاں ان کے گودکے لالوں کو،بوڑھاپے کے سہاروں کو،خاندان کابوجھ سنبھالنے والوں کو،فرقہ واریت کے شیطان نے چھین لیا۔کئی بوڑھی مائیں آج بھی فسادات میں لاپتہ اپنے لالوں کاانتظارکررہی ہیں کہ بیٹااب بھی آجائے۔ظالموں کوخاطرخواہ سزائیں بھی اب تک نہیں ملیں۔کیاملک کامعاشرہ،سوسائٹی اسی طرح ظلم وستم کیساتھ چلے گی۔کیامودی کی ماں کی طرح ان ماؤں کی بھی میڈیاخبرلے گا۔منظرکشی کرے گا۔جسے مودی کے راج میں اس طرح ان کے لالوں سے ان کی جان ومال سے کھلواڑکیاگیا؟کتنی ہی مائیں عدل و انصاف کیلئے آج تک در در کی ٹھوکریں ٹھوکریں کھارہی ہیں مودی سرکار انہیں انصاف دلانے کیلئے کیا کرے گی ؟