شازیہ عندلیب
آج کے دور میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان دنیا کی حدوں سے باہر نکلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ستاروں کو چھو لینے کی تمنا انسان کو خلاء میں لے گئی ہے جہاں نہ پانی ہے نہ ہوا۔لیکن حضرت انسان بڑے استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ خلاء میں چہل قدمی اور سیر سپاٹے میں مصروف ہے۔وہ اس لیے کہ خلاء میں دنیا کا نظارہ ہی نرالا اور حسین تر ہوتا ہے۔پوری کائنات پر سب سے حسین ترین سیارہ اور ذہین ترین مخلوق انسان ہی تو ہے۔پھر وہ کیوں ٹک کے بیٹھے۔انسان اپنے اعلیٰ و ارفیٰ ہونے کے زعم میں کائنات کے ہر سیارے میں جھانکتا تاکتا پھر رہا ہے۔خلا میں خلائی اسٹیشنوں کی تعمیر خلاء میں چہل قدمی خلاء میں کاشت کاری اور چاند پر پودوں کی آبیاری جیسے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔جلد ہی اس کرہء ارض کے مشرقی حصے میں موسم گرما کی چھٹیوں کی آمد آمد ہے۔جہاں لوگ مختلف مقامات کے سیر سپاٹوں میں مصروف ہیں۔ وہیں ٹریول ایجنسیاں چاند اورمختلف سیاروں کی جانب سفر کرنے اور چھٹیاں گزارنے کے پیکجز تیار کر رہے ہیں ۔اگر آپ بھی چاند یا کسی سیارے کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمارے ساتھ رہیں اور ہمارے ساتھ چاند پر اور چاند کے پار چلیں۔۔۔
ٹیکنالوجی کے صفحے پر ہم آپ کو خلائی سفر اور چاند ستاروں کی سیر کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کریں گے۔۔۔
اس موقع پر ایک دلکش گیت یاد آ رہا ہے
چلو دلدار چلو
چاند کے پار چلو
ہاں اپنے ساتھ اس سفر پہ کسی کو ساتھ ضرور لے چلیں کسی ہم سفر کی موجودگی چاند ستاروں کے اس انوکھے سفر کو چار چاند لگا دے گی۔مگر ایک منٹ خلا کی جانب سفر پہ جانے سے پہلے کچھ ضروری معلومات آپ کے گوش گزارنی ہیں انہیں ضرور ذہن میں رکھیں ورنہ ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔جب آپ چاند کے سفر پہ جانے کے لیے خلاء میں نکلیں گے تو آپ کیسا محسوس کریں گے اور آپ کے جسم پر اس کے کیا اثرات ہوں گے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ جن مندرجہ ذیل کیفیات سے آپکا جسم گزرے گا وہ یہ ہیں۔۔۔
سر درد
اکثریت کو سر درد کا احساس ہو گا۔زمین کی کشش ثقل سے نکلنے کے بعد پہلے روز سر میں چکر اور الٹی کی شکائیت بھی ہو سکتی ہے۔
آنکھیں
انتیس فیصد خلا نورد خلاء میں اور ساٹھ فیصد خلائی اسٹیشن پر بینائی کے مسائل سے دو چار ہوتے ہیں۔وہ طویل فاصلے پر نظر میں دھندلاہٹ محسوس کرتے ہیں۔اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ آنکھوں کی شیپ فلیٹ ہو جاتی ہے کیونکہ سر میں پریشر محسوس ہوتا ہے۔
ریڑھ کی ہڈی
کشش ثقل کی غیر موجودگی کی وجہ سے خلاء نورد سیارے کی سطح سے دس تا پندرہ سینٹی میٹر بلند ہو کر فضا میں تیرنے لگتے ہیں۔ریڑھ کی ہڈی اکڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے خون کی شریانیں ٹوٹ جاتی ہیں اور کمر میں درد محسوس ہوتاہے۔
مسلز
بین الاقوامی خلائی اسٹیئشن پر ایک ہفتے کے دوران خلاء نورد کا بیس فیصدتک مسلز کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ان اعضاء میں کولہے،کمر ،ریڑھ کی ہڈی اور گردن کے مسلز ذیادہ متاثر ہوتے ہیں۔مسلز کے اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے خلاء نورد یومیہ دو سے ڈھائی گھنٹے کے لیے ورزش کرتے ہیں۔
جسمانی ڈھانچہ
مسلز کے کم ہونے کی وجہ سے جسمانی ڈھانچے کی ساخت میں کمی آ جاتی ہے۔جس کی وجہ سے ایک تا دو فیصدتک جسمانی ڈھانچہ میں کمی ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے ہڈیوں کی ریخت ہو سکتی ہے۔زمین پرواپسی کے بعد ان ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کے لیے دو سے تین سال درکار ہوتے ہیں۔
خون کے بہاؤ کا نظام
خلاء میں خون کا بہاؤ دماغ کی جانب ہو جاتا ہے۔یہ خون ایک تا دو لیٹر تک ذیادہ ہوسکتا ہے۔اس کے اثرات کم کرنے کے لیے ٹائٹ زیر جامہ مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
قوت مدافعت
کچھ مدافعتی سیلز مزید مضبوط ہو جاتے ہیں۔ان میں جسم میں الرجی اور دیگر بیرونی امراض کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ تھی وہ جسمانی تبدیلیاں جن کا آپ کو سامنا ہو سکتا ہے خلائی سفر کے دوران۔۔۔تو پھر آپ تیار ہو رہے ہیں خلاء کے سفر پہ جانے کے لیے ۔اس لیے کہ بقول علامہ اقبال
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں