آخری حصہ
’’ کیا بھیّا تم کوئی پٹواری اٹواری �آ ہو؟ ہم تو اَہی جانت ہیں، سائد تحصیل ما نوکر ہو۔ کا ہے بھیّا۔۔۔۔؟ ہاں تم کہت رہے رات ما ہم کام نہ کری۔۔۔۔؟یو بھلا کیسے ہو سکت ہے۔ بھیّا دن ما تو جانو ہمرا کام کبہوں کھتم نا ہیں ہوت ہے۔ ابہیں دیا کھواِتّے ڈھیر سارے جوتے پرے ہیں۔ رات بھر کام کیا ہم تبہوں اَتاّ کام بچ گوا۔۔۔۔۔ تم جانو میاں نِدھن ادمی ہیں۔ ابہیں برَی بیٹوا کیرابیاؤ کیا رہے سو بدھیا بیٹھ گئی ہمری۔ تبہوں سسرا ر منئی کہت رہیں دہیج کم دِہن۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے بڑی زور سے ہتھوڑی کیل پر ماری۔
اتنی سخت محنت۔ اُس پر اتنی مفلسی۔ زندگی کتنی کٹھن ہے اسکی اور اِس پر وہ اس کو کام سے منع کررہا ہے۔ لیکن۔۔۔۔ اس کے ذہن میں ایک خیال اُبھرا۔۔۔۔ تو پھر آخرِ وہ خود کیسے لکھے گا۔ فن کی تخلیق کئے بغیر وہ بھی تو زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر اُسے سکون کی تلاش میں اور کہیں جانا پڑے گا لیکنیہ خوبصورت کُنڈ، یہ سایہ دار ، پُر اسرار درخت، یہ پر سکون فضائیں۔۔۔ نہیں یہ جگہ تو وہ کسی قیمت پر بھی نہیں چھوڑ سکتا پھر اُسے اپنا ناول بھی تو جلد ہی ختم کرنا ہے۔۔۔۔۔۔اُسے اپنے فن پارے سے محبت ہے۔ اور ایک بار پھر وہی آواز ، وہی رات کی پُر اسرار، پرُسکون، خاموش فضاؤں میں ابھرنے اور ذہنی سکون کو درہم برہم کرنے والی تیز آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی
’’ تو رات کو کام کرنے پر تم اندازاً کتنا کما لیتے ہوگے؟‘‘
’’ اَہی کوئی بیس پچیس روپیہ مہنیہ اور کا ۔ بس گُجر بسر ہوجات ہے‘‘۔ وہ کھانستے ہوئے بولا
’’ اچھا تم اس سے زیادہ روپیہ مجھ سے لے لو اور رات کا کام بند کردو۔‘‘
اُسی وقت رام دلارے کی بیوی آگئی۔ بولی’’ چھٹکے کا بُکھار بہت تیج ہے دوا لے کھا تن کب جیہو۔۔۔۔۔۔‘‘؟
اسی وقت رام دلارے کو بڑی تیز کھانسی اٹھی۔ کھانستے کھانستے اس کا سانس الٹنے لگا۔ پاس رکھی ہوئی چلم کے انگارے سلگ سلگ کر راکھ ہوچکے تھے۔۔۔۔۔۔ اسی وقت ، ٹھیک اسی وقت اندر سے بچّے کے رونے کی غر غرے دار آواز فضامیں ابھری !
’’ دیا کھت ہو میاں کا کہت ہیں؟ کہت ہیں کہ ہم سے پیسہ لے لیو اور رات کا کام نہ کیا کرو۔ یوبھلا کیسے ہوسکت ہے؟‘‘
’’ اور کا ہم اَتّی(اتنی) بار کہا تم سے ۔۔۔۔۔ پر تم مانت کب ہو محلے ٹولے کے منئی کہت کہت تھک مرے۔ بھیّا جب پیسے دے کا کہت ہیں تو لیو مُپھت کی رکم اور سوپَرکے رات کاہاں ۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ ذرا غصّہ سے بولی۔
’’ اری توی کا تو جانواَہی پری رہت ہے۔ کچھ سوجھت ہے رات ما کام نہ کری تو یو پیٹ کیسے بھرے۔‘‘ اُس نے پیٹ کی طرف ا شارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی چھٹکی بیٹوا کیرابیاؤ کرے کاہے اور دیدے نا ہیں کھُلت ہیں جنو‘‘ یہ کہہ کر اُس نے کان کے اوپر پھنسا ہوابیڑی کا ٹکڑا نکال کر سلگایا اور ہتھوڑی اٹھالی۔
میلی ہوگئی تھی اس پر پڑے ہوئے سیاہ داغ اور واضح ہوگئے تھے۔ اور اس کے پیر ننگے تھے! حالانکہ اس کی ساری عمر محض جوتے ہی بنانے میں گذری تھی۔۔۔۔۔
’’بھیّا ہم کا بہت سرم لگت ہے تم سے یو‘ کہتے۔۔۔۔۔‘‘ وہ رُک رُک کر جھجھکتے ہوئے بولا’’ کہ بھیّا ۔۔۔۔۔۔ ہم کا یو‘ روپیہ ناہیں چہیے۔‘‘
نوٹوں کی گّڈی اس نے جھُک کر آگے بڑھا دی۔’’ ہمکا ماپھی دیو سر کار۔ ہمکا ماپھی دیو سرکار۔۔۔۔ رام رام‘‘۔۔۔ اُس نے ہاتھ جوڑے۔ ندامت سے اس کا سر جیسے اٹھ نہ رہا ہو۔وہ تیزی سے مُڑا۔ اور چند لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
اُسے نہ غصّہ آیا نہ جھنجھلاہٹ محسوس ہوئی نہ ہی ہتھوڑی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ بس اس کی نظریں اور گہری ہوگئیں جن میں عقیدت کا جذبہ اُبھر آیا۔ اُسے محسوس ہو ا کہ وہ انسان جس کا نام رام دلارے تھا، جو ابھی ابھی یہاں سے رخصت ہوا تھا فضاؤں میں پرواز کررہا ہو، اڑرہا ہو آسمان کی اتھاہ بلندیوں میں ۔۔۔۔ اوپر ۔۔۔۔ اور اوپر اور کھوگیا ہو وسعتوں میں۔۔۔۔۔اُفق کے اسُ پار۔۔۔۔۔۔ اُسے لگا فلک کے ماہ انجم اس کے ساتھ چل رہے ہوں۔!