تحریر: ڈاکٹر فیصل حنیف – دوحہ، قطر
جز خان اور کوئی نہ آیا بروئے کار
(مکتوب مرزا اسداللہ خان غالب بنام عمران خان)
ڈاکٹر فیصل حنیف
برخوردار کامگارسعادت و اقبال نشان ، میری جان عمران ہمہ دان،
مبارک مبارک، سلامت سلامت، تم سیاست کی راہ کے اکبر ہو، ادھر جیتے ادھر جیتے- تمھاری رفتار رنگیں کی اور عالم کے دل پہلے سے کھنچے جاتے تھے کہ تم نے فرماں روائی کو آ لیا- تم نے تاج کیا سر پر سجایا مخالفوں نے سارے جہان کو سر پر اٹھا لیا- تم غمگین نہ ہونا، ہاتھوں میں دل کو رکھے حیراں ، دانتوں تلے جگر کو رکھے پریشاں، رنج بے شمار سے سینہ فگار، دل داغدار، سیاست کی راہ کے ان غولوں کو بسبب سیاہ روزگارشام سے سحر کو فرق کرنا مشکل ہے، سیاست کا لپکا پڑا یوں نہیں جاتا،فرط شوق حکومت کو کم نہ جانو، ان کے درد علاج کی فکر نہ کرو، اشک افشانی کوئی رنگ لاوے، یہ جھاڑو سے تنکے ہو جاویں تو ضعف و بے طاقتی سے کوئی صورت نکلے- شکوہ اغیار پہ ہنسی آتی ہے- یہ بار بار کا آزار ہے، میاں لڑکے جان لو
غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟
میری جان، سنو داستان ، میں یہاں ہوں جہاں مجھ کو سب کی خبر ہے، میر صاحب بھی یہاں ہیں، برخوردار اقبال بھی، الہ آباد کے میاں اکبر بھی، تمھارے اور ہمارے دلپسند محمد علی جناح بھی- میر صاحب سے تمھارا تذکرہ کیا تو کہلوا بھیجا کہ تم دشوار راہوں پہ گردن زیر خنجر چل نکلے ہو، دل کو پتھر کر لو
گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں
رہ عشق میں پھر خطر کچھ نہیں
تم کو دیکھتا ہوں تو مبتلائے آفتِ رشک ہوتا ہوں، پریوں کو تسخیر کرنا عمر بھر جی کا وبال ٹھہرا- مثل ابر جل تھل بھرا تو بھی سیری نہ ہوئی، تقریب بہرِ ملاقات مصوّری میں جی لگایا ، ناز کھینچا ، سخن سازی کی، انتظار کھینچا – جانتا کہ ہنگامے کا اک طور نیا نکلے گا، یہ بلے کاری جس کو تم کرکٹ کہتے ہو حلقہ زنجیر بن جاوے گا اور یک سلسلہ مہر و وفا قیس و کوہکن سے جوڑ دیوے گا- میر صاحب جانتے تو عزت سادات نہ کھوتے-خیر یہ باتیں جانے دو- میں اس خیال میں تھا تمھارا سہرا لکھتا، پہ مکّرر بہ مکّرر سہرا لکھنا فقیر کی عادت نہیں- کہو تو استاد شہ کی مرضی معلوم کروں؟ خط رسم زمانہ ،کسی ناساز بے طور کج رو نے تمھاری تاج پوشی پہ قصیدہ لکھنے کو کہا، جانتا نہیں کہ مجھ کو ستائش کی تمنّا نہیں، پہ صلے کی پروا ہے- جانتا ہوں تم لئیم الطبع نہیں، پہ اس باب میں مہربان بھی نہیں، اور امید وارِ عنایات بنے منہ تکنا مجھ کو گوارا نہیں- اگلے قصیدوں کے صلے کے عوض نمک پاشیوں سے ہنوز مجروح ہوں- لو صاحب ہم باز آئے ایسی معاش سے-
خدا تم کو دولت و اقبال روز افزوں عطا کرے-یہ فقط دل لگی کی باتیں ہیں، مجھ کو صلے سے اب کیا علاقہ- ڈرتا ہوں میں خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں، تم نا حرف شناس ٹھہرے ایک اور داغ غم چپکا دو گے- تقریب گریہ سخن رکھ چھوڑوں، مجھ کو ہمت نہیں، دماغ نہیں-
میاں لڑکے، سخت حیرت میں ہوں تم کس ڈھب کے آدمی ہو؟ تم آدمی نہیں جن ہو- اس راہ میں کیا کیا داغ کھائے- چاروں طرف سے پتھر چلے آتے تھے، پہ تم چلے جاتے تھے، غضب کا شور، قیامت لحظہ لحظہ، پہ تم چلے جاتے تھے- واہ لڑکے واہ- جیتے رہو آفرین، صد ہزار آفرین-
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے
میرا دل جانتا ہے کہ میں تم کو اس مسند پر دیکھنے کا کس قدر آرزومند تھا- تمھاری تاجپوشی دیکھنے پورا بدن آنکھوں میں آ رہا، سادگی میں کیا رنگا رنگی تھی- میں خدا کا شکر بجا لاتا ہوں، تم کو تخت شاہی پر دیکھ کر آنکھیں روشن ہوگئیں، دل کو چین آ گیا، روح تازہ ہوگئی- صدر صاحب کی ریختہ گوئی نے لطف دیا، تمھاری ریختہ شوئی نے گنہگار کیا- صابن سا منہ میں گھل گیا،طبعیت الٹ گئی، ہم سخن وا کرتے کرتے مر گئے، اب صبر بن کوئی چارا نہیں – جلوے کا دھوکا کہ صاحب بہادر مغموم، سو آنکھیں دکھاتے نظر آئے- تمھارا تلفظ آزار کا سبب معلوم ہوتا ہے گو ایک اور طرف بھی گمان جاتا ہے- میں گرچہ دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا، پہ تم سے نا امیدی اور صاحب سے بد گمانی رکھوں، ہے ہے خدا نہ کرے اس بیباکی کی جرات کروں-
میرا کہا “جز خان اور کوئی نہ آیا بروئے کار” فقط آرایش عنوان نامہ نہیں ، جو ازروئے دیدنی مجھ پر حالی ہوا ہے وہ سنو – سب یہاں ہم باہم ہیں، تمھارے بابائے قوم کو تم پہ سو سو ناز ہے- میاں اقبال کو تم میں اپنا شاہین نظر آتا ہے- تمھاری خوبیوں کی تابانی دیکھ خورشید و ماہ منہ چھپاتے ہیں- تمھاری طرز سادہ اس راہ پرخار میں تیشۂ فرہاد ہے- تم کو اپنے وطن سے عشق ہے، میاں لڑکے تیشے کو سنبھالو اور عشق کو زور آزمائی کرنے دو-
ہاں صاحب، جو چاہے مانے جو نہ چاہے نہ مانے تمھارے رفیقوں نے تمھاری خاطر سے کیا زحمت اٹھائی ہے، صاحبان منصب کے واسطے ایمانداری کے سوا کوئی صورت نہیں- تم جانتے ہو کہ وفائے دلبراں اتفاقی ہے، حادثاتی ہے، ترکیبی ہے ، تم جواں مرد جواں ہمت ہو کسی کو اپنے مزاج میں تصرف نہ کرنے دیجیو- خبردار کر دو کہ
عاشقوں کے بھی معین ہو گئے ہیں اب حقوق
عہد عمرانی ہے یہ، اے جان جاں، شاہی گئی
ایک لطیفہ نشاط انگیز سنو-میر صاحب سے اس باب میں نشست ہوئی کہتے ہیں تم اتنا کیوں دل جلاتے ہو- اب تم تماشا دیکھو- برخوردار عمران سے کہہ دو کہ حق تعالی تمھیں عمر و دولت و اقبال و عزت دے- معاملہ یوں ہے کہ
میں تو خوباں کو جانتا ہی ہوں
پر مجھے یہ بھی خوب جانے ہیں
مجبوری کو کمزوری نہ بننے دیجیو، تمھاری سب کار گزاری پر پانی پھر جاوے گا اگر صاحبان منصب کے انتخاب میں چوک ہوگئی، جان لو، کار بوزینہ نیست نجاری، یعنی بندر بڑھئی کا کام نہیں کر سکتا- سنار کی دکان پر لوہار کو بٹھا کر کنگن کے رہٹ بننے پر حیران نہ ہونا-
تمھاری تقریر کی فسوں گری کا لطف ہنوز اٹھاتا ہوں- تمھارا دیدار میسر ہوا، گفتار سنی- سحر بیانی ایسی کہ ہر لفظ مثلِ جوہرِ تیغ آبدار تھا- لذت ایسی کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے – تم نے جو کہا ہے خوب کہا ہے- ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال، جو دیکھتا ہے حیران ہوتا ہے، اب شہر میں جا بجا اسی کا بیان ہوتا ہے-یہ کیا اتفاق ہے کہ تمھاری بات کوئی نہیں سمجھا- گویم مشکل والا معاملہ نہ تھا- ہاں، سماعتوں میں فتور پڑا، ہنگامہ برپا ہے، ہر طرف سے رنج کا ہجوم ہے- یہ سر پیٹنے کی جا ہے- کیا ہنسی آتی ہے، تمھارے رقیب چھوٹے پہاڑ سے اترے بڑے پہاڑ پر چڑھ گئے-
تمھاری جان اور اپنے ایمان کی قسم، میں تم کو اطلا ع دیتا ہوں کہ یہ ترک ستم گری نہ کریں گے، پہ تم کو لازم ہے کہ طرز گفتار بدلو، تم مثل آفتاب و ماہتاب، چمک و توانائی اور نرمی و ٹھنڈک کو بیک وقت بروئے کار لاؤ-شمع عالم تاب بنو، یہ امور ایسے نہیں کہ جلد فیصل ہو جاویں- شکوہ کرنا سہل ہے، میری جان خدا تیرا نگہبان اچھی فکر پر عمل کرو الفاظ صیقل ہو جاویں گے-
سو بات کی ایک بات سنو، خود کو اور عوام اور سیاسی رقیبوں کو ایک ڈور میں باندھ لو، جب وہ ڈھیلی چھوڑیں تو تم کھینچ لو، جب وہ کھینچیں تو تم ڈھیلی چھوڑ دو- گربہ کشتن روز اول اچھا ڈھب نہیں، اعتدال پسندی کو رواج دو، شملہ بمقدار علم زیب دیتا ہے- تمھارے رقیب بھی گرفتار الفت وطن ہیں- محبت، راست چلنی اور شیریں زبانی سے ان کو رام کر لو- شکر شکنی خاصے کی چیز ہے- سنو صاحب تم جانتے ہو میاں اقبال تم سے ریشم کی نرمی اور فولاد کی سختی کی امید رکھتے ہیں-یہ نہ کر سکو تو تم کو آفریں-
ایک فرنگی سے ایک بات سنی، دل کو لگی- تم دل کو لگا لو، یعنی، نہ سنو اگر برا کہے کوئی- چلتے جاؤ-
Segui il tuo corso, e lascia dir le genti (Dante Alighieri)
کل کا قصہ سنو، سر راہ اکبر میاں سے ملاقات ہو گئی- حضور کہتے ہیں کہ رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں کہ برخوردار عمران سے تقریر میں قرضہ جات کے اعداد و شمار (فگر) میں فروگزاشت ہو گئی- یہ بندہ پر تقصیر دم بخود رہ گیا- میں خوب جانتا ہوں کہ یہ ممکن نہیں ،’ فگر’ کے باب میں غلطی نہ کرنا تمھاری خوبی نہیں بنیادی مہارت ہے- تمھاری نگاہِ آفتاب کے آگے تیغِ تیزِ عریاں دم دیتی ہے- یہ جوہر ، یہ لیاقت ذاتی ہر سوختہ جاں پیدا کر نہیں سکتا- ‘ فگر’ کی بات میں تم تب نہ چوکے جب کچے تھے، اب تو پختہ کار ہو، تمہاری بات کل مستند تھی اور آج مستند مکرر ہے- سادگی و بیخودی اچھی ہے، پرکاری و ہشیاری کا لطف سوا ہے، میاں داغ نے خوب کہا ہے کہ وہ پختہ کار ہے دل جس کا بار بار آیا- اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو، جو تمہاری نہ مانے وہ تم سے واقف نہیں- انھیں کچھ نہ کہو-
تمھارے دوام دولت کا دعا گو ہوں، جان لو اس سے کچھ بحث نہیں کہ ترقی علم سے مشروط ہے، تحقیق سے جڑ جاؤ، سائنس کو اپنا لو، مجھ کو فراموش کر دو تو میں راضی، پہ حکیم نیوٹن اور حکیم آئن سٹائن اور ایسوں سے استفادہ کرو- اور ہاں، یہ نہ بھولو کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی-
پاکستانی قوم کو مبارک نوید صبح نو ، تمھارے ساتھیوں کو سلام اور دعا ، شیر نر میاں سدھو کو دعائیں اور برخوردار ولید اقبال کو پیار، یہ لڑکا پرتو اقبال ہے، دردمندان قوم میں سے ہے، سراپا دانش، صاحب گفتار بھی ہے اور صاحب کردار بھی، اس کی قدر کرو- اور ہاں
ہمیں خبر ہے کہ تم ہو چراغ آخری شب
تمھارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
عمر فراواں و دولت زیادہ
فقط
غالب
جمعرات ٢٣ اگست ٢٠١٨
————————————