شہزاد بسراء
نعمان نے تیسری پوری پکڑتے ہوئے کہا
“ارے صاحب Once in a whileپوری کھا لینی چائیے ۔ باقی دنوں میں تو ہم پرہیز ہی کرتے ہیں ۔ آج کوئی 15دنوں بعد حلواہ پوری کھا رہا ہوں ۔ اگر بالکل ہی کولیسٹرول والا کھانا چھوڑ دیں تو یہ بھی صحت کیلئے ٹھیک نہیں ہوتا ”
پاکستان سے باہر جاکے اپنے مخصوص کھانوں کی بہت یاد آتی ہے۔ ایمان لگتی بات ہے حلواہ ،پوری اور چنے سے بڑھ کر کوئی ناشتہ مزیدار نہیں ہوسکتاوہ علیحدہ بات ہے کہ آپ کا معدہ اسے قبول کرتا ہے یا نہیں ۔ امریکہ قیام کے دوران کوئی 7ماہ بعد پوری کی شکل دیکھی جب وہاں مقامی پاکستانی دوستوں نے اجتماعی ناشتے کا پروگرام بنایا ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان میں بہت لچک رکھی ہے۔ بندہ اپنا رہن سہن، لباس، زبان اور حتیٰ کہ سوچ اور خیالات تک بدلتے حالات اور ماحول کے مطابق تبدیل کر لیتا ہے مگر اپنی زبان کا چٹخارا نہیں بدل سکتا۔بندہ کہیں بھی چلا جائے زیادہ عرصہ دوسری خوراک نہیں کھا سکتا۔ تبدیلی کے لیے تو ہر خوراک بھاتی ہے مگر اُسے مسلسل نہیں کھایا جا سکتا۔آپ پیزہ یا چائنیز کھانا ہر روز نہیں کھا سکتے۔ دنیا کا بڑے سے بڑا شیف ماں سے بہتر کھانانہیں پکا سکتا کیونکہ ماں کے کھانے کھاتا کھاتا بندہ اُسی کا عادی ہو جاتا ہے۔ دیارِ غیر میں عرصہ دراز سے رہنے کے باوجود ایک پاکستانی روٹی، شوربے، پلاؤ اور دودھ والی چائے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔50 اقسام کے کھانوں کی دعوت ہو تو بھی ایک پاکستانی روٹی کی تلاش میں ہو گا۔ہم لوگ تو چائینیز ریسٹورنٹ میں کھانا کھا کے گھر آ کے جب تک تھوڑی سی روٹی نہ کھا لیں نیند نہیں آتی۔
کھانوں اور لذیز پکوانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آنکھوں اور لَب ولہجہ میں جو چمک آتی ہے وہ صرف اہل لاہور ہی کا خاصہ ہے۔ کسی کے لاہوری ہونے کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ پھجے کے پائے، نیلا گنبد کے مرغ چنے، اچھرہ کے پٹورے، نرالا کی رس ملائی، بیڈن روڈ کی آئس کریم، وارث کی نہاری، نسبت روڈ کا ہریسہ ، بشیر دارلماہی کی مچھلی، لکشمی چوک کی کھیر ، ٹیمپل روڈ کے گونگے کے کباب اور موچی گیٹ لال کھوہ کی باداموں والی برفی کا تذکرہ محبوبہ کے نازو ادا اور حُسن کے تذکرے سے بڑھ کر کرے گا۔
روائتی اور لذیز کھانا دوسری انسانی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ پہلی کمزوری کے متعلق سعادت حَسن منٹو اور عصمت چغتائی پہلے ہی کافی تفصیلاً بیان کرچکے ہیں۔ مگر اہلِ لاہور کی پہلی کمزوری غالباََ کھانا ہے۔ کبھی کبھار تو کھانے کے متعلق گفتگو سُن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید لذیذ کھانا اہلِ لاہورکے ایمان کا حصہ ہے۔ اہلِ لاہور جب حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کر کے لوٹتے ہیں تو جہاں مقاماتِ مقدسہ کا تذکرہ کریں گے تو ساتھ ہی کجھوروں، البیک کے فرائڈ چکن، تلوں والے نان اور مفت تقسیم ہوتے جوس کے ڈبوں کا بیان بھی اُسی عقیدت ، اشتیاق اور جذبات سے کرتے ہیں ۔
الیکٹرونک اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی بھر مار نے دنیا بھر کو جدید علم سے آگہی کروا دی ہے۔تعلیم یافتہ لوگ اب زیادہ کھانے کو شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ صحت بخش غذا اور کم خوراکی اکثر محافِل میں زیر گفتگو رہتی ہے مگر اس دور میں بھی بسیار خوری کو اہلِ لاہور فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں ۔کوئی بھی محفل ہو خواہ علم و ادب ، ثقافت ، تہذیب ، مذہب یا سیاست زیرِ بحث ہو اہلِ لاہور گھوم پھر کے بات کھانوں پر لے آئیں گے اور پھر ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے اصحاب بھی آپس میں شیروشکر ہو جاتے ہیں۔ غالباً یہی خو ش خوراکی اہل لاہور کو زندہ دلانِ بناتی ہے۔
نعمان بھی خالصتاً لاہوریا ہے۔ 10سال امریکہ رہنے کے باوجود ابھی تک اُس کا دل پھجے کے پائیوں میں اٹکا ہوا ہے۔نعمان کا فرمان ہے کہ
’’ ہر وہ خوراک جِس میں کولیسٹرول ہو ، مزیدار ہوگی‘‘
اپنی نوجوانی کے دنوں میں نعمان کو باڈی بلڈنگ کا شوق تھا اور لاہور کے چند گنے چنے باڈی بلڈروں میں اُس کا شمار ہوتا تھا۔ اُن دِنوں وہ ڈیڑھ درجن انڈے یعنی اٹھارہ، نصف جن کے 9ہوتے ہیں ، روزانہ کھا جاتا تھا ۔ باقی دودھ ،مکھن، ملائی اور روزانہ رات کو مغز اور گوشت کڑھائی اس کے علاوہ ہوتے تھے۔ وہ باڈی بلڈر تو بن گیا مگر نااہل اور جاہل کوچز کے خوراک کے مینو کی وجہ سے مستقل کولیسٹرول کی زیادتی کا شکار ہوگیا ۔ ڈاکٹروں نے اُسے کولیسٹرول والی خوراک سختی سے منع کر رکھی ہے مگر اُس کا لاہوری خون یہ فرماتا ہے کہ
’’ ہر وہ خوراک جس میں کولیسٹرول ہو ،مزیدار ہے‘‘
اور
Once in a while یعنی ’’کبھی کبھار‘‘ کولیسٹرول سے بھر پُور کھانا کھا لینا چاہیے ۔
پوریوں کے ناشتے کے بعد ہمارا نعمان کے ساتھ دو دن اکھٹے سیر کا پروگرام بن گیا ۔ہالی ووڈ کی سیر کے بعد رات کو ایک انڈین ہوٹل میں چلے گئے۔ وہاں چکن کڑھائی، دال اور کباب کے علاوہ نعمان نے اپنے لیے فون پر بھنے ہوئے مغز کا آڈردے رکھا تھا۔جب سب احباب نے مغز کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا تونعمان نے رال ٹپکاتے ہوئے پوری رقاب ہی سنبھال لی اور واہ واہ کے ڈونگر ے برسانے لگا۔ میں نے جب نعمان کو توجہ دلائی کہ مغز میں بہت زیادہ کولیسٹرول ہوتا ہے اور تمہیں کولیسٹرول منع ہے تو حضور پکوان کی شان میں یوں رطب السان ہوئے
’’واہ کیا مزیدار مغز ہے۔ Once in a while کھالینا چاہیے۔ میں کونسا روز روز کھاتا ہوں ۔ آج کوئی ایک ماہ کے بعد تو کھایا ہے‘‘
’’او مائی گاڈ۔ اِس کا مطلب ہے کہ تم ہر ماہ مغز کھاتے ہو‘‘ میں نے تاسف سے کہا۔
’’ یار میری اِتنی فکر نہ کیا کرو۔کچھ نہیں ہوتا‘‘
اگلے دن نعمان نے ایک بنگالی ہوٹل کی کھوج لگائی جہاں گوبھی کے مکھن والے پراٹھوں کی چہار سو دھوم مچی تھی ۔ نعمان نے جب دوسرے پراٹھے کو اپنی پلیٹ میں رکھا تو میں نے دھیمے لہجے یاد دلایا کہ مکھن کے پراٹھوں میں بھی کافی کولیسٹرول ہوتا ہے تو حضور گویا ہوئے
’’بھئی Once in a while پراٹھے کھا لینے میں کوئی ہرج نہیں ۔میں نے آج کوئی بیس دن بعد تو پراٹھا کھایا ہے۔ کون سا روز کھاتا ہوں‘‘
چند دنوں بعد نعمان سے ملاقات ہوئی توچھوٹتے ہی کہنے لگا
’’آؤ آئس کریم کھانے چلتے ہیں‘‘
میں نے حسب معمول کم چکنائی والا چھوٹے سائز کا کپ پسند کیا جبکہ نعمان فل چکنائی والے کنگ سائز کپ پرجھپٹ پڑا۔ میری زیرِ لب مسکراہٹ کا مقصد سمجھتے ہوئے نعمان نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا
’’ شہزاد صاحب میں کونسا روز آئس کریم کھاتاہوںOnce in a while کھالینی چاہیے ‘‘
اگلے ویک اینڈ پر میں نے کسی ساحل سمندر جانے کی خواہش کا اظہارکیا تو نعمان نے فوراً Laguna Beach کا پروگرام بنا لیا۔ میں نے Laguna Beachکے انتخاب کی وجہ پوچھی تو نعمان بولا کہ وہاں کے سورج غروب ہونے کا منظر دنیا کا خوبصورت ترین منظر ہوتا ہے۔
شادی شدہ زندگی میں بیوی کا شوہر کو گھر چھوڑ کر چند یوم کے لیے میکہ چلے جانا ایک ایسا خواب ہے جِس کو حقیقت میں بدلنے کی خواہش لیے شوہر قبر میں چلا جاتا ہے۔ اگر کبھی یہ انہونی ہو جائے تو شریف سے شریف شوہر کے جذبات بھی مچل جاتے ہیں۔ اور اگر بندہ امریکہ میں ہو تو سونے پہ سہاگہ۔چونکہ نعمان کی بیگم پاکستان گئی ہوئیں تھی تو میں نے اُسے چھیڑتے ہوئے پوچھا
’’ لگتا ہے Laguna Beach کی کوئی اور بھی وجہء انتخاب ہے‘‘
’’ہاں یار‘‘
نعمان کی آنکھوں میں ایک ناقابلِ بیان چمک آئی اوررال ٹپکاتے ہوئے بولا
’’ بہت دن ہوگئے ہیں کھائے ہوئے ۔Laguna Beach کے قریب ہی ایک گوجرانوالہ ہوٹل ہے جہاں کے بُھنے ہوئے چڑے اورٹَکاٹَک بڑے مزے کے ہوتے ہیں۔واپسی پر وہیں ڈنر کریں گے۔ ‘‘