از ڈاکٹر سید ندیم حسین
صدر ادبی تنظیم دریچہ اوسلو، ناروے
سُنتے ہیں ایک جنت تھی وہ
پریوں کا ایک دیس تھا
جہاں گُل و لالہ کی مہک تھی
جو گُلابوں کا وطن تھا
رنگ و بو کا چمن تھا
جہاں پریاں ناچتی تھیں
قطار اندر قطار
دِل کو لُبھاتے سبزہ زار
آسماں کو چُومتی
برف ہوش چوٹیاں
پُھولوں سے اٹھکیلیاں کرتی
رنگ برنگی تتلیاں
الہڑ مُٹیار سی بل کھاتی ندیاں
جل ترنگ سناتے چشمے
نیلگوں سےپانی کی جھیلیں
ہاں یہ خطہ جنت نظیر ہے
یہ میرا وطن کشمیر ہے
پریوں کا ایک دیس تھا
جہاں گُل و لالہ کی مہک تھی
جو گُلابوں کا وطن تھا
رنگ و بو کا چمن تھا
جہاں پریاں ناچتی تھیں
قطار اندر قطار
دِل کو لُبھاتے سبزہ زار
آسماں کو چُومتی
برف ہوش چوٹیاں
پُھولوں سے اٹھکیلیاں کرتی
رنگ برنگی تتلیاں
الہڑ مُٹیار سی بل کھاتی ندیاں
جل ترنگ سناتے چشمے
نیلگوں سےپانی کی جھیلیں
ہاں یہ خطہ جنت نظیر ہے
یہ میرا وطن کشمیر ہے
مگر سوچتا ہوں
کس کی نظر لگی اسے
کہ اب وہاں
گُل ولالہ کی مہک نہیں
بارود کی بُو ہے
چشموں کی جل ترنگ نہیں
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی آہیں ہیں
برف پوش چوٹیاں ہیں جیسے
بلند عزم جوانوں کی کفن پوش لاشیں
الہڑ مُٹیاریں نہیں
تار تار عزت حوا کی بیٹیاں ہیں
جھیلوں میں نیلگی نہیں
لہو لہو پانی ہے
آج یہی میرے کشمیر کی کہانی ہے
مگر وعدہ ہے تجھ سے
اے میرے جنت نظیر
اے میرے کشمیر
بدلیں گے تیری تقدیر
بدلیں گے تیری تقدیر