باعث افتخار
انجینئر افتخار چودھری
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
رکھنا میرے بچو اسے سنبھال کے
ایک دس سالہ بچے کا چھ ستمبر بھی عجیب تھا گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیں محلہ باغبانپورہ گجرانوالہ سے موضع نلہ ہری پو ہزارہ ماں جی کے پاس بھیج دیا جاتا۔ماں جی کے پاس پہچنا ایک خواب ہوتا دن مہینے گنے جاتے اور خدا خدا کر گاؤں پہنچتے۔1965کی گرمیوں کی چھٹیاں گزاری جا رہی تھیں۔ہمیں وہاں گاؤں میں بلکل احساس نہیں تھا کہ جنگ کیسی ہوتی ہے۔ویسے بھی اس کھلنڈری عمر میں کون کسی جھمیلے میں پڑتا ہے۔ایک دن ایک کارڈ آیا جس پر لکھا تھا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے لہذہ گجرانوالہ آنے کی ضرورت نہیں ہے۔کارڈ نے ہماری خوشیاں دوبالا کر دیں اور ہ اس بچے کی طرح چھلانگیں لگانے لگے جس نے ہیڈ ماسٹر کو ڈوبتے دیکھ کر چھٹی اوئے کا نعرہ لگا دیا تھا وہ بھی اس خوشی میں ماسٹر صاحب مریں گے تو اسکول بند ہو گا۔چڑیالہ نلے گاؤں کا آخری کونہ ہے درکوٹ کی جانب سے نلہ میں داخل ہوں تو یہ پہلہ محلہ ڈھکیاں نام تھا اس جگہ کا جہاں ہمارا گھر تھا۔چچا جان یہاں گرمیوں میں آ جاتے تھے۔سردیوں میں نیچے گاؤں میں اور گرمیوں میں یہاں۔گجروں کی ڈھوکیں اسی طرح کی ہوتی ہیں خالی گجر ہی نہیں پورے علاقے کے لوگ مال مویشی رکھتے تھے اور ان جگہوں پر منتقل ہو جاتے تھے جہاں چراہ گاہیں نزدیک ہوتی ہیں کوئی یہ نہ سمجھے کے علاقے کی دیگر قومیں عباسی اعوان کوئی پیرس میں رہتے تھے سب ہی اسی طرح گزر بسر کرتے تھے۔اس جنگ نے ہمیں تو یہ خوشی دی کہ دو مہینے کی چھٹیاں اڑھائی مہینے کی ہو گئیں۔رات کو چچا جان باہر آگ نہ جلانے دیتے بتایا کرتے کہ جنگ کیا ہوتی ہے وہ انگریز دور میں فوج میں ملازمت کرتے تھے،بیماری کی وجہ سے بورڈ ہو کر آ گئے تھے۔چچا جی کمال کے شخص تھے نحیف لیکن چست ان کا کہنا تھا کہ دشمن اوپر سے دیکھ لیتا ہے اور اگر اسے پتہ چلے کہ آگ جل رہی ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ یہاں آبادی ہے اور وہ بم پھینک دیتا ہے جس سے نقصان ہو جاتا ہے۔مجھے بلکل نہیں علم تھا کہ یہ دشمن کون ہے البتہ ریڈیو پر اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا اللہ اکبر۔سیل والا ریڈیوں شاں شاں کرتا ریڈیو قومی نغمے اور ترانے سنا تا۔ہمارے اپنے گاؤں کے لوگ فوج میں تھے گھر والے پاکستان کی کامیابی کی دعا کرتے اور ان کی سلامتی کی دعائیں مانگی جاتیں۔فوجی بھائیوں کے پروگرام میں ان کے فرمائیشی گیت سنائے جاتے۔مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ ہمیں اسکول نہیں جانا پڑا سترہ روزہ جنگ میں پاکستان نے بہادری کی داستانیں رقم کیں۔ہمارے گاؤں سے چند میل دور ریحانہ گاؤں ہے جنرل ایوب خان اسی گاؤں کے تھے ان کی تقریر ریڈیو پر سنی بعد میں کئی بار دہرائی گئی مجھے یاد ہے وہ کہہ رہے تھے کہ دشمن نے اس قوم کو للکارا ہے جو کلمہ طیبہ پر یقین رکھتی ہے۔مکئی کی فصل تیار تھی اور دڑنے بھی۔دڑنہ کھٹے انار کو کہتے ہیں جس سے انار دانہ بنتا ہے۔ہوتر والی جگہ پر مکئی کاشت تھی جیٹھی مکئی کی کھمیں کھانے کو تیار تھیں ہماری کزن ہمیں مکئی بھون بھون کر دیتی دن میں کھٹے انار کھاتے اور شام ڈھلے میٹھی مکئی کے بھٹے بھون کر دئے جاتے بہن سنتھے کی لکڑی سے اس کے دو ٹوٹے کر کے ہمیں تھما دیتی۔ایک ننھے سے لڑکے کی خوشیاں محدود سی تھیں۔سادہ زندگی ستمبر کے دن بھادوں کا موسم تھا اس موسم کی گرمہ کہتے ہیں کھتے کو بھی تڑپا کے رکھ دیتی ہے گرمی اور اوپر سے پسینہ۔دیکھ لیں آج کل زندگی کتنی مشکل ہو گئی ہے۔جیسے ہی جنگ ختم ہوئی ہم کچھ مکئی کے بھٹے اور تھوڑے دڑنے لے کر گجرانوالہ پہنچ گئے وہاں گاؤں کی کھلی فضاء سے ادھر ایک احاطے کے مکان میں داکل ہوتے وقت جو کوفت ہوتی اس کو بیان کرنا مشکل ہے۔ہم اپنے کزنز کے ساتھ جو موج مستی گاؤں میں کرتے اس کا بیاں لفظوں میں مشکل ہے،باریاں میں ایک سل گٹی تھی ایک پتھر جس کے درمیان بڑا سوراخ تھا اس سے آر پار ہوتے۔اس بار نواز کے گھر گیا تو اپنا بچپن تلاش کرتا رہا بنج والی چیڑھ بھی ادھر تھی۔لیکن وہ لوگ کہیں چلے گئے تھے۔میرے دوست کچھ اس دنیا میں ہیں اور کچھ اس دنیا میں لیکن ایک ہستی جسے ترس گیا ہوں وہ بے جی تھیں۔میری ماں کا کمال یہ تھا کہ گاؤں میں پہنچنے کے فورا بعد چولہا سنبھالتیں دوسرے روز لکڑیاں چننے جنگل میں چلی جاتیں۔میں بھی کبھی کبھار ان کے ساتھ چلا جاتا۔فیاض بھائی اپنے چینے اور دوسری مال مویشی کے ساتھ جنگل جاتے تو میں بھی ساتھ دیتا۔جنگ کے ان دنوں میں میں چھٹیاں مزید بڑھ گئیں جی چاہتا کہ یہ جنگ جاری رہے مقصد صرف یہ تھا کہ گجرانوالہ واپس نہ جائیں۔کہتے ہیں چھٹی جتنی لمبی ہو اس نے ختم ہو جانا ہوتا ہے۔اپنے گاؤں سے اپنے شہر آمد کے بعد چھوٹا سا گھر اور اپور سے شدید گرمی بڑا عجیب لگتا یہاں کون سے پنکھے اور اے سی تھے یہاں پہنچے تو دوستوں نے جنگ کی داستانیں کچھ اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کیں کہ دل تڑپ اٹھا ڈاگ فائٹس کا ذکر کرتے اور کہتے بھارتی جہاز جب سرگودھا کی جانب جاتے تو ان کے پیچھے ہمارے جہاز لگ جاتے لاہور میں چھتوں پر تماشہ دیکھنے لوگ آ جاتے جب کوئی جہاز گرتا تو بو کاٹا کہ آوازیں بلند ہوتیں۔ کہتے ہیں کہ بھارتی پائلٹ نے کہا میں راوی پر بم پھینکتا تھا کوئی سبز چولے والا اسے دبوچ لیتا۔نور جہاں اور مہدی حسن نے وہ لازوال گیت گائے کہ کہنے والوں نے کہا آدھی جنگ نورجہاں جیت گئی۔صوفی غلام مصطفی تبسم نے وہ لازوال نغمہ لکھا جو صدیوں یاد رکھا جائے گا ایہ پتر ہٹاں تے نئی وکڈے تو لبھدی پھریں بازار کڑے ،مہدی حسن نے گایا
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
کاش کوئی جنگ ستمبر کے گیت نغمے چھاپ دے کاش کوئی ان شہداء پر ایک کتاب لکھ دے۔کاش کوئی اس قوم کو بتا دے کہ یہ قوم کیسے بنی۔
قوم اس جنگ کو جیتنے کے بعد برسوں نشے میں رہی۔ہمارے حجام محمد حسین جسے چاچا حسین کہتے تھے ان کی دکان مدرسہ اشرف العلوم گندے نالے کے قریب تھی ساتھ میں ڈاکٹر ریاض کا کلینک تھا۔محمد حسین بڑا سخت مزاج چاچا تھا اس کی خوش اخلاقی صرف والد صاحب کے لئے تھی بال کاٹنے کے دوران گردن ایسے مروڑتا جیسے آج کل فارمی ککڑی کو چکن فروش ذبح کرتا ہے۔چاچا بڑا ظالم چاچا تھا سیپی تھا کوئی چھ مہینے بعد دانے لیتا تھا۔جدہ کے بخش صالون سے بچے ڈرتے تھے میں چاچے محمد حسین سے ڈرتا ہوں۔ستمبر کے آخری دنوں میں ان کی دکان پر گیا تو جنگ ستمبر کے شہیدوں کی تصویرون سے مزین کیلنڈر دیکھے،جنگ کا حقیقی نقشہ کھینچتی تصویریں دیکھ کر جی کہتا کہ کاش میں بھی فوجی ہوتا مجھے ان دنوں جنگ بدر کے وہ ننھے معوز اور معاز یاد آ گئے جنہوں نے جنگ میں شریک ہونے کے لئے ایڑیاں اونچی کیں۔میرا جی بھی چاہتا تھا کہ میں فوجی بنوں میں بھی ایک جیپ چلاؤں۔خواب بعض اوقات خواب ہی رہ جاتے ہیں۔پاک فوج سے محبت کی داستانیں مدتوں سنائی گئیں۔ستر کے انتحابات میں میجر جنرل سرفراز کا وہ واقعہ مین اکثر بیان کرتا ہوں۔انہوں نے بتایا کہ جنگ جاری تھی میں واہگہ بارڈر جا رہا تھا دیکھا ایک بوڑھی عورت راستے میں پانی کا چھڑکاؤ کر رہی ہے۔میں نے رک کر پوچھا کہ اماں آپ یہ کیا کر رہی ہیں۔کہتے ہیں میری آنکھیں نم ہو گئیں جب میں نے اس کا جواب سنا کہنے لگیں بیٹا میں بیوہ ہوں لوگ اس جنگ میں دفاعی فنڈ میں رقم دے رہے ہیں چینی پتی پیش کر رہے ہیں میرے پاس نہ رضائی ہے نہ کمبل اور نہ ہی کیش رقم سوچا بچے فوجی بچے بارڈر جا رہے ہیں ان کے راستے میں میں دھول اڑتی ہو گی کیوں نہ میں اس دھول کو بٹھانے کے لئے پانی کا چھڑکاؤ کر دوں۔میرے جوان ساتھیوں یہ تھا جذبہ یہ تھی کاوش۔یہ پاکستان ایسے ہی ہمیں نہیں مل گیا اس میں ماؤں کی کاوشیں بھی شامل تھیں بیٹوں کا خون بھی۔آج جب چھ ستمبر کو یاد کرنے کے لئے ڈھوک منشی میں ایک تقریب ہو رہی ہے تو مجھے وہ دن یاد آ گئے۔آج قوم بد مست ہے چھ ستمبر پر بھی منتشر ہے ایک تقریب شیخ رشید اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے والے کر رہے ہیں اور دوسری شیخ کے بھانجے سے ٹکٹ چھیننے والے۔بار بار سوچا کہ میں نہ جاؤں ایک گروہ نے بلایا نہیں دوسرے نے کہا ہے کہ آئیں۔سچ پوچھیں میں جو پاکستان پاکستان کرتا ہوں جی یہ چاہتا ہے کہ قران کھولوں اور شہداء کو ثواب کر دوں۔لیکن سوچتا ہوں نوجوان سوچین گے کہ انکل اس لئے نہیں آئے شائد وہ مصلحت کا شکار ہو گئے ہیں میں نے مصلحتیں دیکھنا ہوتیں تو بھٹو دور میں تشدد مشرف دور مین جیل نہ جاتا اسی شیخ رشید سے پوچھ لیجئے کہ جن انجینئر افتخار چودھری جدہ جیل میں تھا آپ کہاں تھے اقتتدار میں۔کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں ہم تو اب بھی جد وجہد میں ہیں اور ماسخورے کو ماس مل گیا۔
جنگ ستمبر نے پاکستان کو شناخت دی اس سے پہلے پاکستان کو کوئی جانتا نہ تھا۔ستمبر تو جب بھی آتا ہے مجھے راجہ عزیز بھٹی بریگیڈئر شامی ایم ایم عالم سب یاد آتے ہیں۔میں اس قوم کے جوانوں کو جب بد مست دیکھتا ہوں تو جی کرتا ہے انہیں ان شہداء کی قبروں پر لے جا کر رب ذوالجلال سے اپیل کروں کہ کن فیکون والے رب اذن دے شہید عزیز بھٹی کو ایم ایم عالم کو کہ انہیں بتائے کہ ستمبر ہے کیا۔دس سالہ بچے کا ستمبر ایک عظیم ستمبر جس نے اس بچے کو تریسٹھ سال کی عمر میں بھی جوان رکھا ہے۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
رکھنا میرے بچو اسے سنبھال کے