میرا درخت میری مرضی
باعث افتخار انجینیئر افتخار چودھری
سموک کی تبرکاریوں پہ میں نے بہت کالم لکھے ہیں لیکن درخت کاٹنے کے اوپر پھر اور کالم لکھ رہا ہوں ویسے تو جس نے بلین ٹری سنامی کا پروگرام کامیاب کیا اور پوری دنیا نے اس کو سراہا اور سعودی عرب نے بھی اسی پروگرام کو بڑھانے کی کوشش کی ہے اس کو عمران خان کی بات نہ کر رہا ہوں اس کو تو ہم نے جیل میں ڈالا ہوا ہے اور اس کے لیے مختلف قوانین بنا رہے ہیں کہ 73 کے ان کی شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے تو ائین ایسا کر لیا ہے کہ جو سرکار کی مرضی اس میں ڈال دیا گیا 26 ویں ترمیم تو ہم روتے ہی تھے اس کے بعد جو ترمیم کی اور جو ایکٹ کی ہے وہ بالکل ماما جی کی عدالتوں کے لیے بنایا گیا ہے تاکہ عمران خان کے گرد گرا تنگ کیا جائے لیکن میں عموما یہ کہتا ہوں کہ جب تمام راستے بند ہو جاتے ہیں تو پھر ایک راستہ اللہ کھولتا ہے اور اپ اللہ کے اس کھولے ہوئے راستے کے کسی ترمیم کے ذریعے بند نہیں کر سکتے جتنا مرضی ایکسٹینشن لے جتنا مرضی اپ کچھ کریں لیکن اخر موت نے اپ کو گھیرے میں لینا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کامیاب تب ہوگا کہ جب ایک اواز ائے گی اے میرے بندے آ اپنا نامہ اعمال اپنے دائیں ہاتھ میں رکھ اور میری جنت میں داخل ہو جا یہ لوگ جو اج عمران خان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں ان کے نامہ اعمال میں دیکھ رہا ہوں جمعہ کا روز ہے میں کہہ رہا ہوں میں گجر ہوں اور 70 سال کا گجر آدھا ولی ہوتا ہے میں آپ کو کہہ رہا ہوں اپ سب کے ہاتھوں میں نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ہوگا اور اپ نے دوزخ کی طرف روانہ ہوں گے چلیے میں تو شروع سے ہی کہتا تھا کہ ان عدالتوں میں مت جائیے اپ کے سامنے مثال اللہ بخش شہید کی دیتا ہوں جماعت اسلامی کا یہ کارکن ایوب دور میں ایجنسیوں کی طرف سے شہادت پا گیا مولانا مودودی نے اپنی تقریر جاری رکھی اور کہا کہ ہم نے یہ کیس اللہ کی عدالت کی پیش کر دیا وہ بہتر منصف ہے
چھوڑیے حامد خان صاحب بیرسٹر گوہر فیصل چوہدری اور دیگر وکلاء اللہ کے حوالے یہ کیس کریں پھر دیکھیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے
سنیے اج کا قصہ
آج کل کے معاشرتی حالات میں جہاں ہم ایک طرف ترقی کی دوڑ میں ہیں، وہیں دوسری طرف ہماری اقدار اور ماحول کی حفاظت میں شدید کمی محسوس ہو رہی ہے۔ آج ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں اس وقت گجرانوالہ میں اپنے بیٹے کے پاس رہ رہا ہوں، اور وہاں کے علاقے میں ایک شخص نے اپنے گھر کے سامنے موجود گرین لینڈ میں تین درختوں کو بے دردی سے کاٹ ڈالا۔ یہ درخت نہ صرف ماحول کے لیے اہم تھے بلکہ ان کی موجودگی پورے علاقے کے ماحولیاتی توازن کا حصہ تھے۔ جب سیکیورٹی والوں نے اعتراض کیا، تو اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ “یہ میرا جگہ ہے، میری مرضی ہے، میں جو چاہوں کروں۔” اس ظالمانہ فعل کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ درختوں کی اہمیت ہمارے ماحول اور نسلوں کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔
یہ واقعہ صرف تین درختوں کے کاٹنے کا نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال کا غماز بھی ہے۔ ہم اپنے ماحول کو تباہ کر کے ترقی کے راستے پر گامزن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنی قدرتی وسائل کو سستی ترقی کی خاطر قربان کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہماری سموگ کی صورتحال ہے جو گجرانوالہ اور دیگر شہروں میں انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہم باہر نکلنے کے قابل نہیں رہتے، اور یہ تمام صورتحال ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمزوری کی دلیل ہے۔
یہ جو “میرا جسم، میری مرضی”، “میرا گھر، میری مرضی”، اور “میرا درخت، میری مرضی” کا نعرہ لگایا جا رہا ہے، یہ دراصل ہمارے معاشرتی اور اخلاقی بحران کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارا حق ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نہ ہمارا جسم ہمارا ہے، نہ ہمارا گھر اور نہ ہی ہمارا درخت ہمارا ہے۔ یہ سب اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں، اور ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔ اسلام میں جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے، پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تو ہمیں اسلامی حدود کے اندر رہ کر اپنے حقوق کا استعمال کرنا چاہیے۔
ہم ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہیں جہاں درختوں کا کاٹنا ظلم کے مترادف ہے۔ جو تین درخت آج کاٹے گئے ہیں، ان کے نتیجے میں میرے پوتے پوتیوں کو جو گندی ہوا ملے گی، اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ جب تک ہم اس بات کا احساس نہیں کریں گے، ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک نے اپنی ترقی کے پیچھے صرف یہ نہیں رکھا کہ “میرا یہ، میری مرضی”، بلکہ انہوں نے اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھا، اور اسی وجہ سے وہ آج ترقی یافتہ ہیں۔
گوجرانوالہ ایک ایسا شہر ہے جو پہلوانوں کے لیے مشہور ہے، لیکن یہاں جو ایک دن میں نظر آیا، وہ ایک گجرانوالہ کے پہلوان سے سامنا تھا۔ ایک شخص کراچی سے گجرانوالہ آیا اور اسٹیشن پر اترتے ہی اسے تین چار پہلوانوں سے سامنا کرنا پڑا۔ یہ کراچی کا شخص، جو ہم سمجھتے ہیں کہ بہت باوقار اور حاجب ہوتا ہے، ان پہلوانوں کے ساتھ بات کرنے آیا تھا۔ وہ بولا، “میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا، بس مجھے راستہ پوچھنا ہے۔” گوجرانوالہ کا پہلوان ہنستے ہوئے کہنے لگا، “تکلیف دینا ہے؟ تو سانوں کی تکلیف دینا ہے؟” اس طرح کی صورتحال جہاں پہلوانوں کی طاقت اور ان کے شجاعانہ انداز کا احساس ہوتا ہے، وہیں ہماری اجتماعی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا بھی بہت گہرا تعلق ہے۔
آج جب مجھے اپنے بیٹے کے ہمسایہ کے دروازے پر جانا تھا اور کچھ کہنا تھا، تو دل میں خوف تھا کہ کہیں مجھے کہیں کھٹکھٹانے پر اپنے کھنا کھول دینے کی دھمکی نہ مل جائے۔ یہ سب انفرادی خودمختاری کی دھجیاں ہیں جو ہم مسلسل چھین رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ “میرا جسم، میری مرضی”، “میرا گھر، میری مرضی” اور “میرا درخت، میری مرضی” کی بات کر کے ہم نے آزادی حاصل کر لی، لیکن اس کا اصل مفہوم صرف تب ہی نکلے گا جب ہم ان حدود کا احترام کریں گے جو اللہ نے ہمیں دی ہیں۔
گجرانوالہ کے نظام کی حالت میں، جہاں سی ٹی او اور وزیر اعلیٰ اپنے ٹک ٹاک ویڈیوز میں مشغول ہیں، سڑکوں اور ٹریفک کے مسائل بدترین حد تک بڑھ چکے ہیں۔ اس سڑکوں کی بدحالی میں نہ صرف شہریوں کی زندگی مشکل ہو گئی ہے، بلکہ ہماری اخلاقی اقدار بھی پامال ہو رہی ہیں۔ گجرانوالہ کی ٹریفک کی بدانتظامی اور اس پر حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی ایک اور مثال ہے کہ ہم “میرا، میری مرضی” کی پالیسی اپناتے جا رہے ہیں، لیکن اس کے نتائج ہمارے معاشرتی توازن کو درہم برہم کر رہے ہیں۔
حال ہی میں جب ڈی ایس پی باور شعیب کی بیٹیوں کی شادی میں شرکت کا موقع ملا، تو وہ مجھے بتانے لگے کہ ان کے علاقے میں اے سی کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کے حوالے سے کچھ لوگوں نے شکایت کی ہے۔ اے سی ایک عورت ہے جو اپنا کام کرنا چاہتی ہے، مگر لوگوں کی طرف سے اس کی توہین اور مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ واقعتاً حیران کن ہے کہ ایک افسر جو اپنے فرض کو پوری دیانتداری سے ادا کرنا چاہتی ہے، اسے اسی معاشرتی بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا گواہ میں خود ہوں۔
جب میں سرکلر روڈ پر عینک بنوانے گیا تو سڑک پر ایک اور افسوسناک صورتحال دیکھنے کو ملی۔ ٹریفک کے مسئلے میں لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر بھی تیار ہیں، اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ٹریفک کے افسران نہ صرف اپنے فرائض سے غافل ہیں بلکہ انہیں لوگوں کی جان و مال کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ایک طرف وزیر اعلیٰ اپنے ٹک ٹاک ویڈیوز میں مصروف ہیں، دوسری طرف ہمارے ٹریفک کے افسران سڑکوں پر لڑائیوں کو روکنے کی بجائے ان ویڈیوز میں مصروف ہیں۔ کیا اس طرح کی ترقی ہمیں مقصود ہے؟ اگر ہم اس بدانتظامی کو فوری طور پر نہیں روکتے، تو ہم کبھی بھی ایک بہترین معاشرے کی تشکیل نہیں کر سکتے۔
سعودی عرب میں جو سڑکوں کے مسائل حل کیے گئے ہیں، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کر کے ہی ہم ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ سعودی حکومت نے ٹریفک کی بدانتظامی کے خلاف سخت اقدامات کیے، اور کیمرے لگا کر ہر گاڑی کی حرکت پر نظر رکھی، جس سے نہ صرف ٹریفک میں بہتری آئی بلکہ وہاں کے عوام کی زندگیوں میں سکون آیا۔سعودی عرب میں تو کوئی نہیں کہتا ہے کہ میرا ٹریلا میری مرضی۔
سعودی عرب میں جب ہم گئے تو شکیل نے اپنے دوست سے جی ایم سی گاڑی لی وہ بھی ویب سائٹ کے تھرو جس پہ لکھا گیا تھا کہ میں فلاں گاڑی کا مالک ہوں اور فلاں بندے کو اتنے دنوں کے لیے دے رہا ہوں کیوں نہ کنٹرول اور ٹریفک اور کیوں نہ لوگ سیدھے نہ ہوں یہاں پہ تو بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیاں چلتی ہیں اور بے شمار گاڑیاں ہم دیکھتے ہیں اے پی ایف 786 یعنی اپلائیڈ فار 786 لوگوں کے گاڑیوں کے نیچے دبا کے چل پڑتے ہیں چاہے وہ نواز شریف ہو چاہے دوسرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
اگر ہم نے اپنی اقدار، اپنے درختوں، اپنے جسم اور اپنے ماحول کی حفاظت نہیں کی تو ہم کبھی بھی ترقی کے راستے پر نہیں چل سکیں گے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے معاشرتی اور ماحولیاتی مسائل کا حل دے اور ہمیں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت دے۔ درخت لگانے والے اللہ تعالی تجھے رہا کرے ۔درخت کاٹنے والوں اللہ کا عذاب آپ پر نازل ہو اور درخت نہ لگا لوں والو اللہ تعالی اپ کو ہمیشہ ،،جنیوا ،،لے جائے میرا کالم میری مرضی
“واللہ أعلم”