فاطمہ زہرا ہاشمی
میری ددّا
مائیں ایک جیسی ہوتی ہیںا ن کی دعائیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں۔بہت دن ہوئے ددّا نہیں رہیں ہم ان کی یادوں کے ساتھ رہتے ہیں۔میرے بابا میری ددّا کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ددّا نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی لیکن ددّاکو اردو ادب اور مذہبی علوم پر عبور تھا اور وہ سیاسی حالات سے بھی باخبر رہتی تھیں۔قصہ کہانیوں والی ددّا بس قصہ کہانیوں میں ہی ہوتی ہیں۔میری ددّا نے ماشاء اللہ آخری سانس تک اپنی دہشت قائم رکھی۔اولاد کے جوان ہونے تک وہ سب کو گوڈے تھلے دبا کر خوب دھنائی کرتیں۔افطاری میں وہ ہمیں گن کر پکوڑے دیا کرتیں۔جب ہم بچے تھے۔بہت چھوٹے چھوٹے بچے ۔۔۔تو ددّا کہتیں ”آیتیں سنائو،کلمہ پڑھو” ہم توتلی زبان سے پڑھتے تو ہمیں سننے والا مہمان خوشی سے جھوم جاتا اور ددّا ہماری نظر اتارنے بیٹھ جاتیں۔اگر پردہ نہ ہوتا تو ددّا کسی ٹی وی چینل پہ اچار ،مربے کی تراکیب یا غرارے کا ڈیزائن سکھا سکتی تھیں۔کروشیے سے ٹوپیاں اس قدر خوبصورت بناتیں کہ پہن کر ہم کسی سلطنت کے شہزادے لگتے۔ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو مہمان نوازی تھا۔گھر آئے مہمان کو کھانا کھلائے بغیر رخصت نہ کرتیں۔
آخری دنوں میں وہ بہت بیمار ہو گئیں۔پہلے انھیں سہارا دے کر بیڈ پر بٹھایا جاتا اب وہ اس سے بھی گئیں۔شمسہ پھپھو نے اپنی زندگی کا مقصد ددّا کی خدمت بنا لیا تھا۔وہ بھی اپنی بیٹی کی اتنی عادی ہو گئیں کہ ایک منٹ بھی وہ ادھر ادھر ہو جاتی تو ددّ اکو محسوس ہوتا کہ جیسے یہ ان کا آخری وقت ہے۔ایک رات ان کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی۔ڈاکٹر کو بلوایا گیا مگر وہ چپ چاپ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔اب ددّا نہیں رہیں صرف ان کی یادیں رہ گئی ہیں۔