شازیہ عندلیب
کتنے دن ہو گئے ہیں مجھے فون کرتے ہوئے مگر آپکی طرف سے کوئی جواب ہی نہیں ملا۔فون میں سے شیریں آپی کی مسحور کن مگر فکر انگیز آواز سنائی دی۔اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معافی چاہتی ہوں۔دراصل اس روز کے پروگرام میں میں اتنی مصروف تھی کہ آپ کو ٹائم ہی نہیں دے سکی۔انسان سے غلطی تو ہو ہی جاتی ہے۔میں ۔۔۔۔وہ بے تکان بولے جارہی تھیں۔ادھر فون سامنے رکھے اسکا اسپیکر اونچا کر کے نرمین بڑی توجہ سے آپی کی باتیں سن رہی تھی۔اس کے چہرے پہ ایک نرم آسودہ بھری مسکراہٹ پھیلی تھی۔وہ منتظر تھی کہ چائے کی پیالی جیسا یہ طوفان تھمے تو وہ بھی کچھ بولے۔جب شیریں آپی خوب بول چکیں تو شیریں نے بڑے پیار سے کہا نہیں آپی جی ایسی کوئی بات نہیں تھی میں بھلا آپ جیسی دوست سے کیوں ناراض ہونے لگی۔ نہیں پھر بھی دل میں کوئی بات ہے تو بتا دو ۔۔۔۔جی سوری آپی میرے دل میں فالتو باتیں رکھنے کی کوئی جگہ نہیں۔صرف چار تو خانے ہیں اس کے ایک میں اللہ رسول کی محبت ہے ایک میں ما ںباپ کی ایک میں بچوں اور شوہر کی اور رہ گیا چوتھا خانہ تو اس میں اپنے پیاروں کی اور آپ جیسی دوستوں کی جگہ ہے۔اب آپ ہی بتائیں باقی کوئی جگہ بچی ہے؟اب یہ گلے شکوے کس خانے یا تاقچے میں رکھے جائیں؟؟اس لیے میں تو جو بات بھی ہو صاف منہ پہ کہ دیتی ہوں ۔مجھے کوئی لگی لپٹی باتیں نہیں آتی۔حالانکہ سسرالی خیر خواہوں اور بزرگوں نے بارہا نصیحت کی کہ بات کو یوں سیدھا سادا کر کے نہیں کہتے بلکہ ذرا گھما پھرا کر بات کرنی چاہیے۔اس سے اچھا تاثر پڑتا ہے۔یہی عقلمندی کی نشانی ہوتی ہے۔ مگر ہم کہ ٹھہرے ناداں انساں ایسے عقلمند کبھی نہ بن سکے ۔یہ سن کر آپی ہشاش بشاش ہو گئیں۔
وہ ایک نرم خو اور پر خلوص مسکراہٹ والی خاتون ہیں ۔کسی تکلیف کی وجہ سے انہیں جاب سے ریٹائر منٹ مل گئی۔اس کے بعد سے انہوں نے کتابوں میں دل لگا لیا اور کتاب اللہ سے ایسی لو لگائی کہ اس کی باقائدہ تعلیم شروع کر دی۔انکا کہنا ہے کہ میں نے قرآن حکیم پڑہنا شروع کیا تو بھلی چنگی ہو گئی ۔درد وغیرہ سب غائب ہو گئے۔وجہ صاف ظاہر ہے اگر اللہ کی یا کسی بھی فلاح اور نیکی کی راہ پر خالص نیت کے ساتھ چلیں تو پھر طاقت بھی اللہ ہی دیتا ہے اور ہمت بھی!!
حج پر بھی یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ طواف سے پہلے لوگ بخار اور سر درد میں پھنک رہے ہوتے ہیں۔ایک قدم بھی چلنا دو بھر ہوتا ہے مگر جب وہ طواف کر کے واپس آتے ہیں تو ایسے چست اور پھرتیلے ہو جاتے ہیں جیسے کبھی بیمار تھے ہی نہیں۔اتنی تیزی سے تو کسی تیز ترین دوا سے بھی آرام نہیں آتا جتنا ایک ڈیڑھ دو گھنٹے کے طواف میں آتا ہے۔ پھر بخار اترنے کے بعد جو کمزوری اور نقاہت ہوتی ہے اسکا بھی دور دور تک نام و نشان نہیں ہوتا ۔یہ ہے دعا کا اثر جو دوا سے کہیںذیادہ تیز اور زود اثر ہے۔جو رنگ دعا لاتی ہے وہ دوا نہیں دکھا سکتی۔لیکن کچھ لوگ پھر بھی اتنے نادان ہیں کہ اللہ کی راہ پہ چلتے ہوئے کتراتے ہیں۔اللہ کے بندوں کی مدد کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔اسی طرح وہ قومیں اور ملک جو دوسروں کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں اللہ انہیں کیسی سر بلندی اور سرفرازی دیتا ہے کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ناروے کا شمار بھی ان مملک میں ہوتا ہے جو نہ صرف مالی بلکہ عملی مدد میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔لیکن پاکستان جیسے ملک جو ہر طرح کی امداد لے کر بھی ترقی تو دور کی بات عوام کو بنیادی سہولتیں تک نہیں دے سکتے۔ایسی قوم کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے ۔مگر یہ دعا ہے کہ جو پاکستانی ناروے میں بستے ہیں وہ تو نارویجن قوم سے فلاحی کام کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کی عادت سیکھ لیں اے کاش ۔۔۔۔
bht khoob likha hai umda andaaz hai
ji tehrir srahnai ka shukriya imran sahab