تحریر شازیہ عندلیب
دوکان پر گاہکوں کی بھیڑ بڑہتی جا رہی تھی۔یہ دوکان شہر کے مرکز میں واقع ایک مہنگی دوکان تھی۔یہاں بیشتر امیر طبقہ کے لوگ ہی خریداری کے لیے آتے تھے۔آج سخت سردی تھی۔برفباری زوروں پر تھی۔درجہ حرارت نقطہ انجماد سے پچیس ڈگڑی نیچے چلا گیا تھا۔
صحتمند اور دراز قد بوڑھا بیورن کرستیان اپنی پسندیدہ لذیذ لکس روسٹ مچھلی خرید کر کائونٹر کے پاس لائن میں کھڑا ہو گیا۔لکس اسکی پسندیدہ مچھلی تھی۔اسے کھانے کے بعد اسے اسکیٹنگ کرنے کا بیحد لطف آتا تھا۔اپنی باری پر بیورن نے اپنا کارڈ بڑی متانت سے نکال کر ادائیگی کے لیے مشیبن میں ڈال کر کوڈ لگایا۔مگر مشین نے شائید غلط کوڈ کی بناء پر کارڈ باہر نکال دیا۔بیورن نے تاسف سے سر ہلایا اور دوبارہ کود لگایا مگر کارڈ پھر باہر آ گیا۔بیورن نے دو تین مرتبہ کوڈ لگانے کی کوشش کی مگر بے سود ہر مرتبہ وہی عمل دہرایا جاتا۔اس کے پیچھے لائن میں کھڑی ایک سنہری بالوں والی عورت نے اسے ادائیگی کی پیشکش کر دی۔کیونکہ کارڈ باہر آنے کی دو ہی وجوہات ہوتی ہیں ایک تو کوڈ کا غلط ہونا اور دوسرے اکائونٹ میں رقم کا نہ ہونا مگر بیورن یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔وہ ایک کروڑ پتی شخص تھا اسکا اکائونٹ خالی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔اس نے بڑی رکھائی سے اپنے پیچھے کھڑی سنہری بالوں والی عورت کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے بڑے فخر سے کہا میں کسی کی مدد لینا پسند نہیں کرتا میں برگن سے آیا ہوں۔
اس کے بعد اس نے دو تین مرتبہ پھر کارڈ مشین میں ڈال کر کوڈ لگایا مگر مسلئہ جو ں کا توں رہا کارڈ بار بار باہر آ جاتا ۔اس کے پیچھے گاہکوں کی لائن لمبی ہوتی جا رہی تھی۔لوگ اس سے تنگ آ چکے تھے۔ایک مرتبی پھر کسی نے اسے ادائیگی کی پیشکش کر دی مگر اس نے اپنا منہ قدرے ٹیڑھا کر کے بڑی رکھائی سے بلند آواز میں کہا نہیں میں برگن سے آیا ہوں اور برگن کے لوگ کسی سے مدد نہیں لیتے۔اسے اپنے برگنی ہونے کااس طرح فخر تھا جیسے ہمارے ہاں کراچی کے کراچوی لوگوں کو ہوتا ہے۔برگن کا شمار ناروے کے ایک بڑے خوبصورت اور امیر شہر میں ہوتا ہے۔اس خوبصورت شہر میں بارش اس کثرت سے برستی ہے کہ برساتی اور چھتری کے بناء باہر جانے کا تصور ہی محال ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ ہوا بھی خوب تیز چلتی ہے۔یعنی اگربارش کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو تیز ہوائوں سے انسان کا ہیر اسٹائل لباس اور چھتری کا بچنا محال ہے۔بس کسی نے دولت کمانی ہو اور پانی کی طرح بہانی ہو تو وہ برگن جائے ۔وہاںبرساتی اور چھتری کی فیکٹری لگائے اور خوب دولت کمائے۔اب اگر ایسے خراب موسم میں کسی کا مزاج بیورن کرستیان کی طرح خراب ہو جائے تو کچھ حیرت نہیں۔وہ مسلسل کارڈ چلانے کی کوشش میں مصروف تھا مگر ناکام ہو رہا تھا۔اسے لائن میں کھڑے پچیس منٹ ہو چکے تھے۔وقتاً فوقتاً لوگ اسے ادائیگی کی پیشکش کر دیتے جسے وہ یہ کہہ کر ٹھکرا دیتا کہ میں تو برگن سے آیا ہوں۔لائن کائونٹر سے لے کر دوکان کے دروازے تک جا پہنچی تھی۔اب لوگ آپس میں چہ مگوئیاں بھی کرنے لگے تھے۔کوئی کہ رہا تھا خبطی بڈھا ہے،تو کوئی کہہ رہا تھا کہ پیسے نہیں تو کسی سے لے لو۔بوڑھے نے نہائیت غصے سے اپنی نیلی آنکھیں اٹھا کر کھسر پھسر کرتے لوگوں کو کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا۔سب یکدم چپ ہو گئے۔ اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں تو ایک اور کارڈ اس کے ہاتھ میں آگیا۔ تب اسے پتہ چلا کہ وہ جو کاڑد ٹرائے کر رہا تھا وہ ایکسپائر ہو چکا تھا۔اس نے جلدی سے کوڈ لگایا مشین نے ادائیگی او کے کی۔اس نے بڑے فخر اور غرور سے گاہکوں کی لائن پر نگاہ ڈالی۔اس نے پچیس منٹ لے لیے تھے۔لوگ اسکی مدد اس لیے نہیں کرنا چا رہے تھے کہ انہیں اس سے ہمدردی تھی بلکہ اس لیے کر رہے تھے کہ انہین اپنا قیمتی ٹائم عزیز تھا۔یہاں ملازموں کو انکے کام کی اجرت گھنٹوں کے حساب سے کی جاتی ہے۔جو کہ ایک سو کرائون فی گھنٹہ سے لے کر پانچ سو کرائون تک ہوتی ہے تعلیم اور قابلیت کے حساب سے۔
بیورن کرستیان ادائیگی سے فارغ ہو کر بڑے فخر سے سامان کی باسکٹ اٹھائے لذیذ روسٹ کی ہوئی مچھلی لیے بیرونی دروازے کی جانب تیزی سے لپکا۔وہ جلد از جلد گھر جا کر روسٹ مچھلی کھانے کے بعد اسکیٹنگ سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔دوکان کا چمکدار فرش گاہکوں کے برف لگے جوتوں کی وجہ سے گیلا ہو چکا تھا۔بیورن فرش پر سے پھسلا اور چاروں شانے چت ٹوکری سمیت فرش پر گر پڑا۔اس نے اک نگاہ
ترحم سے دوکان میں لائن میں کھڑے گاہکوں کی جانب مدد کے لیے دیکھا۔جن کی مدد کی پیشکشیں وہ کچھ دیر پہلے ٹھکرا رہا تھا۔ان سب نے مل کر کہا میں برگن سے آیا ہوں میں کسی کی مدد نہیں لیتا۔
ڈئر شازیہ
آپ کا افسانہ میں نے پڑھا بہت پسند آیا۔
۔سلامت رہیں
اشفاق
ایڈیٹر وائس آف جلالپور جٹاں
بہت خوبصورت مضمون ہے۔دعوت ِغوروفکر ہےحضرتِ انساں کیلئے!
اقبال شیخ، مسسی ساگا،کینیڈا
محترمہ شازیہ عندلیب صاحبہ تسلیمات
کہانی ٹھیک ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس میں قاری کے جذبات کو مزید بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی، انجام کہانی نسبتا اچھا ہے۔
شکریہ
سید احمد
21-10-2013
سید اقبال صاحب کہانی پڑہنے او ر سراہنے کا شکریہ۔یہ قاری کی بیداری والا معاملہ خاصا غور طلب ہے۔مگر مشورہ اچھا ہے۔خوش رہیں۔
ویسے کیا کہانی کچھ خواب آور سی محسوس ہوتی ہے تو پھر اس سے تو بڑے بڑے کام لیے جا سکتے ہیں جناب!!! کیا خیال ہے؟؟
بے حد شکریہ
شازیہ عندلیب