کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ درباروں میں جمع ہونے والے چندے کی کیا اسکو ضرورت ہے جو اللہ کا ولی اپنے مزار م آرام فرما رہا ہے؟ تو جواب نہ میں ملتا ہے پھر سوچتا ہوں کہ یہ آخر جاتا کدھر ہے۔ایک اور بات ذہن میں آتی ہے کہ کیا یہ انکی اولاد کی ضرورت ہے۔جواب میں پھر نہ ہی میں آتا ہے۔ کیونکہ کے ضمیر یہ بات مانے کو تیار نہیں کہ اہل مزار تو اپنی ظاہری زندگی میں تو سب کو اپنے ہاتھوں سے غریبوں کو امیر بے اولادوں کو اولاد کی دعاوں سے نوازتا تھا اور اب بھی ہمارا یقین ہے کہ اسکے مزار پر جائیں اور اسکے وسیلے سے جو مانگیں وہ ملتا ہے لیکن بات تو پھر چندے پر ہی آتی ہے یہ کدھر جاتا ہے؟ اگر انکی اولاد سے پوچھیں گے تو آگے سے استغفراللہ نعوذباللہ کی آواز سننے کو ملے گی اگر اولاد نہی لیتی تو پھر خادمین جو ادھر کی دیکھ بھال کرتے ہیں وہ لے جاتے ہیں کیا؟؟ ان سے پوچھیں گے تو استغفراللہ نعوذباللہ جیسے الفاظ ہی سننے کو ملیں گے۔
تو کیا اہل مزار خود لے لیتا ہے؟
ہرگز نہیں
سوچنے کی بات ہے اگر یہ چندہ نہ ہی اولاد لیتی ہے نہ ہی خادمین تو کونسا چور ہے جو چوری کرتا ہے۔ وہ کونسا لٹیرا ہے جو لوٹتا ہے۔حقیقت یہ ہے کوئی چوری بھی نہیں کرتا کوئی لوٹتا بھی نہیں تو پھر معذرت کے ساتھ یہ چندہ جو دربار کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں یہ انکی جیبوں میں ہی جاتا ہے کوئی مانے یا نہ مانے لہذا
میرے اہل سنت بھائیو خدا کے لیے جس طرح اہل مزار اپنی زندگی میں فقیر کا بھلا کرتا رہا ہے اسی طرح آپ بھی جب مزاروں پر جاتے ہیں تو باہر یتیم بھی بیٹھے ہوتے ہیں دربار کے بجائے اس یتیم کو دو ہوسکتا ہے آپ کے دینے سے اسکی بہن کے ہاتھ پیلے ہوتے ہوں۔ہو سکتا ہے اسکے گھر کا چولھا جلتا ہو۔ہو سکتا ہے اس بچے کے بوڑھے ماں باپ کا علاج ہوتا ہو۔ آپ اسے وہ پیسے جو آپ نے دربار کے ڈبے میں ڈالنے تھے اس یتیم کو دے کر مزار پر جا کر اللہ کے ولی کے پاس حاضری دیں پھر دیکھیں اللہ کی رحمت کس طرح برستی اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے درباروں کےٹھیکیداروں کے لیے ایک ہی بات اگر تم پر دربار کا چندہ ھلال ہے تو لگے رہو اگر نہیں تو خدا کے لیے کسی غریب کو دو ہوسکتا ہے اسکا بھلا
میں بھی سُنی ہوں
تحریر۔ اسد اقبال قادری