زبیر حسن شیخ
وہ الکشن کے ماحول میں گرد و پیش کا جائزہ لینے نکلا تھا – وہ اپنے مغربی رنگ و روپ اور چال ڈھال کے ساتھ کو ئی سیا سی تجزیہ نگار صحا فی نظر آتا تھا ، سوٹ بوٹ ٹا ئی میں ، ہتھیلی میں برقی سرسوں جمائے ، راستوں کو اور لوگوں کو گھورتے چلا جارہا تھا – راستہ میں کھڑی ایک عالیشان بگھی کو غور سے دیکھنے لگا – گھوڑے کی آن بان دیکھ کر اور بگھی کے پیچھے چسپاں اشتہار کو پڑھکر طنزسے مسکرایا …..لکھا تھا “ہندوستان کی ترقی میں کانگریس کی قربانیاں ” اچانک گھوڑا ہنہنایا اور اس کے جوتوں پر گھوڑے کے بول و براز سے نقش و نگار پڑ گیے – وہ انگریز ی میں مغلظات بکتا ہوا آگے بڑھ گیا – گند سے آلودہ اپنے جوتوں کو دیکھ کر اسے بے حد کوفت ہور ہی تھی- وہ جوتوں میں لت پت گند سے چھٹکارا پانے کے لئے راستوں پر کو ئی صاف جگہ تلاش کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا تھا – گندے راستوں پر گندے جوتوں سے چلنے میں اسکے مغربی تیور میں کوئی فرق نہیں آیا ، وہ شا ید اس کا عادی تھا – راستوں پر جا بجا اسے چلچلا تی گر می میں خاکروب نظر آئے، پڑھے لکھے، کچھ تھکے ہارے، کچھ پر عزم – صاف و شفاف جھاڑووں سے گندگی سمٹیتے- گدھوں اور گھوڑوں کی لید اکھٹا کرتے – اس نے تمام تصویریں اپنی برقی بیاض میں قید کر لی – آگے نکڑ پر ایک گدھا گاڑی پر رائے دہندگان کے لئے پینے کے پا نی کے ٹینک لدے دیکھے، اس نے سرمایہ داروں کی اس کاوش کو سراہا – ان سے ٹپکتے پا نی سے وہ جوتوں کی گند سے چھٹکارا پانے میں مشغول ہوگیا – اسے احساس ہوا کہ پانی آلودہ اور بدبو دار ہے – جوتا اور بھی داغدار ہوگیا اور اسے اپنے جسم سے بدبو آنے لگی – اچانک اس کی نظر گدھا گا ڑ ی کے عقب پر چسپاں سر خی پر پڑی- لکھا تھا….. “میرے یار…. اب کی بار …. مودی سرکار” ….اس نے غصہ سے گدھے کی طرف دیکھا اور بے ساختہ کہا ….” گاڈ ڈیم فول “…. اچانک گدھے نے اپنی زبان میں کچھ کہا…. اس نے فورا گردن ہلا ئی اور مسکرا کر آگے بڑھ گیا ….. ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ کر اس نے اپنی برقی بیاض سے اپنے ادارہ میں ماسٹر کمپیوٹر کو اپنی تمام کارگزاری مع تصاویر کے ارسال کر دی – اور یہ سوال بھی لکھ بھیجا کہ “میں شکستہ پا نہیں آلودہ پا ہوں ، اب کدھر جاں ؟ .. جواب آیا….اب جوتوں کا بہتر استعمال کرو …کوئی سیاسی جلسہ تلاش کرو ……