آج کا انتخاب
شاعر: دلاور فگار
—————————–
شاعرِ اعظم
کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں
کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
وہ کون ہیں کہ شاعرِ اعظم کہیں جسے
میں نے کہا ‘جگر’ تو کہا ڈیڈ ہو چکے
میں نے کہا کہ ‘جوش’ کہا قدر کھو چکے
میں نے کہا کہ ‘ساحر’ و ‘مجروح’ و ‘جاں نثار’
بولے کہ شاعروں میں نہ کیجیے انہیں شمار
میں نے کہا ادب پہ ہے احساں ‘نشور’ کا
بولے کہ ان سے میرا بھی رشتہ ہے دور کا
میں نے کہا ‘شکیل’ تو بولے ادب فروش
میں نے کہا ‘قتیل’ تو بولے کہ بس خموش
میں نے کہا کچھ اور! تو بولے کہ چپ رہو
میں چپ رہا تو کہنے لگے اور کچھ کہو
میں نے کہا ‘فراق’ کی عظمت پہ تبصرہ
بولے فراق شاعرِ اعظم ارا اورہ
میں نے کہا کلامِ ‘روش’ لاجواب ہے
کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے
میں نے کہا ترنمِ ‘انور’ پسند ہے
کہنے لگے کہ ان کا وطن دیو بند ہے
میں نے کہا ‘خمار’ کا بھی معتقد ہوں میں
داڑھی پہ ہاتھ پھیر کے کہنے لگے کہ “ایں”
میں نے کہا ‘سحر’ بھی ہیں خوش فکر و خوش مزاج
بولے کہ یوں مزاح کا مت کیجیے امتزاج
میں نے کہا کہ ‘ساغر’ و ‘ آزاد’ بولے نو
پوچھا کہ ‘عرش’ بولے کوئی اور نام لو
میں نے کہا کہ ‘فیض’ کہا فن میں کچا ہے
میں نے کہا کہ ‘شاد’ تو بولے کہ بچہ ہے
میں نے کہا ‘فنا’ بھی بہت خوش کلام ہے
بولے کہ واہ نظم میں کچھ سست گام ہے
میں نے کہا کہ نظم میں ‘وامق’ بلند ہیں
کہنے لگے کہ وہ تو ترقی پسند ہیں
میں نے کہا کہ ‘شاد’ تو بولے کہ کون شاد
میں نے کہا کہ ‘یاد’ تو بولے کہ کس کی یاد
میں نے کہا ‘قمر’ کا تغزل ہے دل نشیں
کہنے لگے کہ ان میں تو کچھ جان ہی نہیں
میں نے کہا ‘عدم’ کے یہاں اک تلاش ہے
بولے کہ شاعری اسے وجۂ معاش ہے
میں نے کہا ‘حفیظ’ تو بولے کہ خود پسند
میں نے کہا ‘رئیس’ تو بولے قطعی بند
میں نے کہا ‘نیاز ‘ تو بولے عجیب ہیں
میں نے کہا ‘سرور’ تو بولے کہ نکتہ چیں
میں نے کہا ‘اثر’ تو کہا آؤٹ آف ڈیٹ
میں نے کہا کہ ‘نوح’ تو بولے کہ تھرڈ ریٹ
میں نے کہا کہ یہ جو ہیں ‘محشر عنایتی’
کہنے لگے کہ آپ ہیں ان کے حمایتی
میں نے کہا کہ یہ جو ہیں ‘گلزار دہلوی’
بولے برہمن کو بھی ہے شوق شاعری
میں نے کہا کہ ‘انور’ و ‘دائم’ بھی خوب ہیں
بولے مری نظر میں تو سب کے عیوب ہیں
میں نے کہا کہ ‘روحی’ و ‘مخفی’ ، ‘نگاہ’ و ‘ناز’
بولے کہ میرے گھر میں بھی ہے اک ادب نواز
میں نے کہا کہ یہ جو ‘دلاور فگار’ ہیں
بولے کہ وہ تو طنز و ظرافت نگار ہیں
میں نے کہا کہ طنز میں اک بات بھی تو ہے
بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے
میں نے کہا کہ آپ کے دعوے ہیں بے دلیل
کہنے لگے کہ آپ سخنور ہیں یا وکیل
میں نے کہا کہ ‘فرقت’ و ‘شہباز’ کا کلام
کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی لازمی نہیں
میں نے کہا تو کس کو میں شاعر بڑا کہوں
کہنے لگے کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں
پایانِ کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ
میں نے کہا ‘حضور’ تو بولے کہ شکریہ
————————