احمد پسماندہ علاقے کا رہنے والا جوان تھا، وہ ذہین تو نہیں تھا لیکن کتابوں سے شدید محبت کرتا تھا۔ اس کا باپ ڈرائیور تھا جو دکانداروں کو سبزیاں سپلائی کرتا تھا۔ احمد نے بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد گھریلوحالات اسے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ وہ گاؤں کے چھوٹے سے میڈیکل اسٹور پر کام کرنے لگا۔ ایک دن دکان کے مالک سے کوئی شخص ملنے آیا۔مالک نے احمد کو کسی کام سے بھیجا تھا جب وہ واپس آیا تو مہمان جاچکا تھا لیکن میز پر اپنی کتابیں بھول گیا تھا۔ کتابیں دیکھ کر احمد کے مطالعہ کرنے کا شوق بیدار ہوگیا۔ وہ دکان کے کام سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ کتاب بھی پڑھتا رہا، شام تک وہ اچھا خاصا مطالعہ کرچکا تھا۔ چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے وہ کتاب کے بارے میں سوچ رہا تھا، ایک جملہ بار بار اس کے ذہن میں آرہا تھا کہ ”انسان جیسے سوچتا ہے، ویسے اس کی زندگی بن جاتی ہے۔“ یہ جملہ آواز بن کر رات بھر اس کے دماغ میں گونجتا رہا۔ اگلے روز دکان جاکر اس نے پوری کتاب پڑھ ڈالی اور تب اسے معلوم ہوگیا کہ محنت کے باوجود اس کی زندگی کیوں نہیں بدل رہی۔ دراصل اپنی غربت اور کسمپرسی دیکھ کر اسے یقین ہوگیا تھا کہ میری زندگی میں کبھی خوش حالی نہیں آسکتی، لیکن اب وہ اس سوچ سے آزاد ہونا چاہتا تھا۔ اس نے زندگی بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کامیاب کاروبار، عزت، خوش حالی اور سکون بھری زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور روز ان خیالات کی مشق کرنے لگا۔ چند روز بعد دکان میں ایک تاجر آیا۔ اسے ایک محنتی شخص کی ضرورت تھی۔ احمد نے مالک سے اجازت لی اور تاجر کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا۔ اس نے اپنی محنت اور مثبت سوچ سے تاجر کا دل جیت لیا، تاجر کا کاروبار پھیلنے لگا تو اس نے احمد کو اپنا شریک بنا لیا، لیکن کچھ عرصے بعد کاروبار بھاری نقصان کا شکار ہوگیا۔ تاجر کمزور دل شخص تھا، وہ یہ نقصان برداشت نہ کرسکا، اس نے احمد کو قصور وار ٹھہرا دیا اور اس کے اوپر خیانت کا الزام بھی لگا دیا۔ احمد کو کاروباری نقصان کے ساتھ ساتھ جذباتی تکلیف بھی برداشت کرنا پڑی۔ تاجر کا دباؤ آئے روز بڑھ رہا تھا۔ اگلے چند ہفتے شدید پریشانی اور اذیت میں گزرے لیکن احمد نے منفی جذبات کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا۔ ایک دن اس نے حالات کاسامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ تاجر کے پاس گیا، اسے بتایا کہ میں نے تمھارے ساتھ بددیانتی نہیں کی لیکن میں پھر بھی اخلاقی طور پر نقصان کی تلافی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ احمد نے اپنا گھر بیچا، اس میں سے آدھی رقم تاجر کو دی اور آدھی رقم سے اپنا کاروبار شروع کیا۔ اس نے شکرگزاری کے احساسات بڑھائے، اپنے خیالات کو زیادہ سے زیادہ مثبت بنایا اور اس یقین کے ساتھ کام کرنے لگا کہ ایک دن میں اپنے علاقے کا سب سے بڑا تاجر بنوں گا۔ اس نے محنت اور دیانت پر سمجھوتا نہیں کیا۔ اس کی خوش اخلاقی اور ایمان داری سے متاثر ہوکر بڑے بڑے تاجر اس کے ساتھ بیوپار کرنے لگے، اس کی محنت کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے، کاروبار بڑھنا شروع ہوگیا تو اس نے دوتین دکانیں لیں اور ملازم بھی رکھ لیے۔ جب دکانوں سے اچھی آمدن آنا شرو ع ہوگئیں تو اس نے دوسرے قریبی شہر میں بھی دکان کھول لی۔ یہاں کچھ عرصے میں اس کے کاروبار کو چار چاند لگ گئے اور اگلے پانچ برس میں وہ شہر کا سب سے بڑا تاجر بن چکا تھا۔
معروف فرانسیسی شاعر اناٹلی فرانس (Anatole France) کہتا ہے کہ عظیم چیزیں حاصل کرنے کے لیے فقط محنت کافی نہیں، خواب بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ صرف منصوبہ بندی کافی نہیں، اپنی ذات پریقین بھی کرنا پڑتا ہے۔
نیا سال ہمیشہ ایک نیا آغاز لے کر آتا ہے۔ اس میں ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے سال کو اپنی زندگی کا بہترین اور انقلابی سال بنائے۔ اس مقصد کے لیے وہ لمبی چوڑی منصوبہ بندی کرتا ہے لیکن ایک چیز بھول جاتا ہے۔ سوچ اور خیال کی کو بہتر بنانا۔ زندگی بدلنے کے لیے بہت سی چیزیں ضروری ہیں لیکن سب سے اہم چیز سوچ کی تبدیلی ہے۔ کیوں کہ یہ ایسی طاقتور چیز ہے جو انسان کی زندگی کو بنا بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ آج کی تحریر میں ہم اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ نئے سال میں آپ اپنی سوچ کیسے بہتر بناسکتے ہیں، قانون کشش کو اپنی زندگی میں کیسے شامل کرسکتے ہیں اور اس کے استعمال سے شان دار نتائج کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
قانون کشش کیا ہے؟
یہ ایساقانون ہے جو بتاتا ہے کہ ہم جو کچھ سوچتے اور محسوس کرتے ہیں، وہی ہماری زندگی میں واقع ہوتا ہے۔ یہ کائناتی قانون ہماری مثبت یا منفی توانائی کو حقیقت میں تبدیل کرتا ہے۔ اگر ہم مثبت سوچتے ہیں اور کامیابی کا یقین رکھتے ہیں تو زندگی ہمیں ایسے ہی مواقع فراہم کرتی ہے، اس کے برعکس اگر ہم منفی سوچتے ہیں تو حالات بھی منفی پید اہوں گے اور آئے روزہماری پریشانیوں میں اضافہ بھی ہوتاجائے گا۔
قانون کشش ہماری خواہشات اور اہداف حاصل کرنے میں مددگار بن سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ کو مثبت بنائیں اور اپنی توانائی ہدف پر مرکوز رکھیں۔ قانون کشش ہمیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو قبول کریں، اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور شکرگزاری کی بدولت اپنے خواب و خواہشات کو اپنی طرف کھینچیں۔
قانون کشش کے قوانین
خیال کا قانون
یہ قانون بتاتاہے کہ آپ کی ذہنی کیفیت (سوچ، خیال، گمان) ویسی ہی ہوگی جیسی آپ کی حقیقت ہوگی اور آپ کی حقیقت آپ کی سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔ آپ اپنے ارد گردکے بارے میں زیادہ تر جو سوچتے ہیں، وہی آپ کی ذہنی کیفیت ہوتی ہے اور اسی کے مطابق آپ اپنے گرد ”حقیقت“ کو تشکیل دیتے ہیں۔
فراہمی کا قانون
اس قانون کے مطابق ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، اس دنیا میں وہ سب کچھ پہلے سے موجود ہے۔ قدرت کے پاس ہر چیز کے لامحدود خزانے ہیں اور ہم جو چاہتے ہیں انسے حاصل کرسکتے ہیں۔لہٰذا ہمیں دوسروں سے حسد رکھنے یاان سے نعمتیں چھیننے کی ضرورت نہیں۔
وصولی کا قانون
یہ قانون بتاتاہے کہ ”آپ جو کچھ حاصل کرناچاہتے ہیں، آپ کو سب سے پہلے وہی چیز دینے کی نیت کرنی ہوگی۔“اگر آپ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے اچھے تعلقات والا انسان بننا پڑے گا۔ اگر آپ زیادہ پیسہ چاہتے ہیں تو آپ کو سخاوت کامظاہرہ کرنا ہوگا۔
بڑھوتری کا قانون
اس قانون کے مطابق،جب آپ کسی چیز کی تعریف کرتے ہیں تو وہ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس لیے آپ اپنی زندگی میں جو کچھ بڑھانا چاہتے ہیں، اس کی تعریف کرنا شروع کردیں یعنی آپ کے ذہن میں اس چیز کے مثبت اوصاف ہوں نہ کہ منفی اوصاف اور خامیاں۔
بدلے کا قانون
یہ قانون کہتا ہے کہ ”ہمیں جو کچھ ملتا ہے، وہ براہِ راست اس چیز کانتیجہ ہے جو ہم دیتے ہیں۔“ یہاں دینے سے مراد محض کوئی چیز دینا نہیں بلکہ ہماری نیت اور عمل بھی اس میں شامل ہے۔ ہم کسی کام یا فرد کے بارے میں جو نیت رکھتے ہیں تو وہ بھی ہماری طرف سے ایک ”دینا“ ہے۔
مزاحمت کا قانون
اس قانون کے مطابق، آپ جس چیز کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، وہی چیز آپ کی زندگی میں جاری رہتی ہے۔ اس لیے کہ جب آپ کسی چیز سے نفرت کرتے ہیں تو آپ اس کے بارے میں اکثر سوچتے رہتے ہیں اورخیال کے قانون کے مطابق وہ چیزہماری زندگی میں شامل ہوجاتی ہے۔
معافی کا قانون
جب ہم ناراض ہوتے ہیں تو ہم آگے بڑھنے اور مفید کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ”معافی کا قانون“ہمیں بتاتاہے کہ ہمیں نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود کو بھی معاف کردینا چاہیے۔
قربانی کا قانون
آپ زندگی میں جوکچھ چاہتے ہیں، اس کے حصول کے لیے آپ کو کچھ نہ کچھ دینا پڑے گا۔ یعنی جو خواہش پانا چاہتے ہیں اس کے لیے محنت کرناپڑے گی،وقت کی قربانی دینی پڑے گی۔ قربانی کے بغیر نتیجہ ملنا ممکن نہیں۔
ہم آہنگی کا قانون
یہ قانون کہتا ہے کہ ہم جو کچھ زندگی میں چاہتے ہیں، اس کے حصول کے لیے ہماری اس چاہت، ہماری نیت، توانائی اور عمل کے درمیان ہم آہنگی اور یگانگت ہونا ضروری ہے، وگرنہ نتائج نہیں ملیں گے۔
اطاعت کا قانون
یہ قانون کہتاہے کہ اگر آپ من چاہی زندگی چاہتے ہیں تو آپ کو درج بالا فطری قوانین کو مکمل طورپر تسلیم کرنا اور ان پر عمل کرنا پڑے گا۔ یہ تمام فطری قوانین اس کائنات میں ہر وقت موجودہیں۔آپ اگر انھیں تسلیم کرلیں توان سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، نہ کریں تونتائج سے محروم رہیں گے۔
نئے سال کے اہداف اور قانون کشش
آپ یقیناً نئے سال کے اہداف متعین کررہے ہوں گے، اس مرحلے پر قانون کشش کو استعمال میں لائیں اورسب سے پہلے اپنے اہداف کا تصورکریں اور یوں محسوس کریں جیسے وہ آپ کو حاصل ہو چکے ہیں۔ یہ طریقہ آپ کی خواہشات کو حقیقت کاروپ دے گا۔
یہ بات یاد رکھیں کہ حقیقی اہداف اور خیالی خواہشات میں فرق کرنا ضروری ہے۔ آپ کے اہداف واضح، قابل پیمائش اور آپ کی قابلیت کے مطابق ہونے چاہییں۔ قانون کشش ان اہداف کو حاصل کرنے میں آپ کا معاون بن سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ آپ اپنے عمل اور عزم کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں۔
شکرگزاری: مثبت توانائی کا ذریعہ
شکرگزاری ایسی طاقت ہے جو مثبت توانائی کو بڑھاتی ہے اور منفی جذبات کو کم کرتی ہے۔ جب ہم اپنے پاس موجود چیزوں کے لیے شکرگزار ہوتے ہیں تو ہماری نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے کیوں کہ یہ خدا کا وعدہ ہے۔ شکرگزاری ہمارے ذہن کو سکون فراہم کرتی ہے اور ہمیں یہ موقع دیتی ہے کہ ہم زندگی کے مثبت پہلوؤں پر توجہ دیں۔ شکرگزاری کا طریقہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے پہلے دن بھر کی اچھی چیزوں کو یاد کریں، اس پر اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ روزمرہ زندگی میں اپنے آس پاس کے لوگوں کی تعریف کریں، کوئی آپ کی معمولی مدد بھی کرے تو اس کا شکریہ ادا کریں۔ نئے سال 2025 میں شکرگزاری کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں تاکہ اس کی بدولت آپ کا یہ سال منفرد، خوش حال اور کامیاب ثابت ہو۔
نئے سال کی کامیابی کے لیے مراقبہ
مراقبہ اور تصورکاری (Visualization) قانون کشش کو مضبوط کرنے کے مؤثر طریقے ہیں۔ مراقبہ آپ کے خیالات کو مرکزیت دیتا ہے اور آپ کو ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔ تصور کاری کی بدولت آپ اپنے مقاصد کو ایسے دیکھ سکتے ہیں گویا وہ وجود میں آچکے ہیں، اسی بنیاد پر وہ بہت جلد آپ کی زندگی میں شامل ہو جاتے ہیں۔
منفی خیالات سے چھٹکارا
منفی خیالات ہماری توانائی کو ختم کر دیتے ہیں اور ہمیں کامیابی سے دور لے جاتے ہیں۔ نئے سال میں اس بات کا عزم کریں کہ میں منفی خیالات سے چھٹکار اپانے کی کوشش کروں گا۔ مثبت سوچ اپنانے کے لیے مراقبہ بہترین عمل ہے، اس کے ساتھ ساتھ مثبت لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں اور خود کو ایسے ماحول میں رکھیں جو آپ کے اندر مثبت توانائی پیدا کرے۔ منفی خیالات چھوڑ کرہی آپ قانون کشش کو بہتر ین انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔
وژن بورڈ
وژن بورڈ کا استعمال ایسا موثر طریقہ ہے جس کی بدولت آپ قانون کشش سے شان دار نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایک بصری ذریعہ ہے جس میں آپ اپنے خوابوں اور مقاصد کی تصاویر اور الفاظ شامل کرتے ہیں۔ اس کی بدولت آپ کا دماغ ان اہداف کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور آپ کو مسلسل تحریک دیتا ہے۔ اپنے لیے ایک وژن بورڈ بنائیں اور اسے ایسی جگہ رکھیں جہاں آپ اسے روز دیکھ سکیں۔
عمل اور استقامت
قانون کشش صرف خواب دیکھنے کا نام نہیں بلکہ ان خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے یہ قانون عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ عمل کے بغیر کوئی بھی خواب مکمل نہیں ہوتا۔ نئے سال میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے عملی اقدامات کریں اور ان پر عمل بھی کریں۔ یہ یاد رکھیں کہ مستقل مزاجی کامیابی کی کنجی ہے۔ جب آپ مسلسل کوشش کرتے ہیں تو آپ قانون کشش کو متحرک کردیتے ہیں، اس کی طاقت آپ کے ساتھ شامل ہوجاتی ہے اور آپ بہت جلد اپنے مقاصد حاصل کرلیتے ہیں۔
نئے سال میں عادات اور تنظیم وقت پر کام کرنے سے پہلے اپنی سوچ پر محنت کیجیے، اسے مثبت بنائیے اور اپنے اندر شکرگزاری کی پختہ عادت پیدا کیجیے۔ اس سال قانون کشش کے اصولوں کو عملی طور پر زندگی میں شامل کیجیے، اس کی بدولت آپ کی زندگی سکون، محبت، مال و دولت اور نعمتوں کی فراوانی سے بھر جائے گی اور آپ کو ایسے شان دار نتائج ملیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔