نارویجن امن کمیٹی کا بھونڈا امذاق
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے 2012کا امن کا انعام یورپی یونین کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے کرہ ارض پر کمیٹی کو کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیاجس نے امن کے لیے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ۔ پاکستانیو ں کو توقع تھی کہ ان کے ایدھی صاحب اس اعزاز کے مستحق قرار پائیں گے لیکن ناروے کی نوبل انعام کمیٹی کا عجیب و غریب فیصلے کرنے میں کوئی جواب نہیں ہے ۔ مثلا 1973میں جب امریکا کے وزیر خارجہ ہنری کیسنجر لائوس پر بمباری کی نگرانی کر رہے تھے تو نوبل کمیٹی نے انہیں امن کا انعام دینے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح 1978میں اسرائیل کے وزیر اعظم مناخن بیگن کو جو اسرائیل کے قیام سے قبل دھشت گرد تنظیم ارگن کے سربراہ تھے ’ امن کا نوبل انعام دیا تھا ۔
یورپی یونین کو نوبل امن انعام دینے کے بارے میں ناروے کی کمیٹی کا یہ فیصلہ گزشتہ چند برسوں میں دوسرا بھونڈا مذاق قرار دیا جارہا ہے ۔ اس سے قبل 2009میں امن کا نوبل انعام امریکی صدر اوباما کو دیا گیا تھاان کے کرسی صدارت سنبھالنے کے صرف سات ماہ بعد ۔اس وقت لوگوں نے کہا تھا کہ نوبل انعام دینے والی کمیٹی میں سب کے سب مسخرے ہیں جنہوں نے دنیا سے یہ مذاق کیا ہے کہ صدر اوباما کو اس قدر عجلت میں امن کا نوبل انعام دیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر بھرپور حملہ دسمبر 2008 میں کیا تھاجب کہ بارک اوباما امریکا کے صدر منتخب ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اس حملہ کی مذمت اور غزہ کے محصور فلسطینیوں کی ہمدردی میں ایک لفظ تک نہیں کہا ۔ ایسا لگتا تھا کہ ان امریکی یہودیوں نے ان کا منہ بند کردیا تھا جن کی حمایت سے وہ کامیاب ہوئے تھے۔غزہ کی اس انیس روزہ جنگ میں دو ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہؤے جن میں معصوم بچے خواتین اور بوڑھے شامل تھے ۔ غزہ کی چھوٹی سی پٹی کے بڑے حصہ کواسرائیل کے جنگی طیاروں نے کھنڈر بنا کر رکھ دیا تھا ہزاروں فلسطینی بے سروسامانی کے عالم میں کھلے آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔جنوری 2009 میں صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد بھی انہیں غزہ میں محصورفلسطینیوں کی حالت زار پر کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کرسی صدارت پر فائزہونے کے بعد پہلا اعلان گوانتانامو بے کا وہ عقوبت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا تھا جو امریکا کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اس اعلان کے بعد چار سال گزرنے کو ہیں گوانتا نا مو بے اب بھی برقرار ہے اور اس میں چار سو سے زیادہ بے گناہ افراد جنہیں امریکا بلا کسی ثبوت کے اپناجنگی دشمن قرار دیتا ہے اب بھی پابند سلاسل ہیں۔انتخابی مہم کے دوران اوبامانے وعدہ کیا تھا کہ وہ اولین ترجیح مشرق وسطی میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان قیام امن کو دیں گے اور امن کی راہ کا یہ نقشہ اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی مملکت کے قیام پر مبنی ہوگا ۔ صدر اوباما کے چار سالہ دور میں اس موعودہ امن کے حصول میں ایک انچ کی بھی پیش رفت نہیں ہوگئی لیکن انہیں امن کا نوبل انعام چار سال پہلے ہی دے دیا گیا تھا۔
ایسا ہی بھونڈا مذاق 27 اقوام کی یورپی یونین کو امن کا نوبل انعام دینے کا اعلان کر کے کیا گیا ہے۔ نوبل انعام کی کمیٹی نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو امن کا نوبل انعام دینے کا فیصلہ اس امر کے پیش نظر کیا ہے کہ پچھلے ساٹھ سال کے دوران یورپی یونین نے یورپ میں امن کے فروغ میںاہم کردار ادا کیا ہے اور یورپی یونین نے یورپ کے جنگ کے بر اعظم کو امن کا بر اعظم بنانے میں مدد دی ہے۔ بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے یا انہیں یاد نہیں کہ نوبل انعام کی کمیٹی کے ملک ناروے نے دو بار یورپی یونین میں شمولیت سے انکار کیا تھا اور اب اسی ملک کی کمیٹی یورپی یونین پر تعریف کے ڈونگرے برسا رہی ہے اور امن کے انعام سے نواز رہی ہے ۔ اس بات میں کسی کو شک نہیں کہ یورپی یونین کو یہ اعزاز بخشنے کا فیصلہ خالص سیاسی ہے جس پر سے اب آہستہ آہستہ پردے اٹھ رہے ہیں۔ ایک تو اس انعام کے نوازے جانے کا وقت بے حد اہم ہے ۔ اس وقت یورپی یونین یورو کے سنگین مالی بحران میں گرفتار ہے اور مایوسی کی فضا نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔مقصد امن کا نوبل انعام دے کر یورپ کے ملکوں کے حوصلے بلند کرنا ہے اور یہ احساس دلاناہے کہ یورپ میں امن کو فروغ دے کر یورپ کے اتحاد کو تقویت پہنچائی گئی ہے اور یہ اتحاد اس بحرانی دور میں اس کی بقا کے لیے بے حد لازمی ہے ۔ یورپی یونین کو امن انعام سے نوازنے کے پیچھے دراصل اس اقتصادی جنگ کے خوف اور خطرہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کار فرما ہے جو یورپ میں بھڑکتی نظر آتی ہے ۔ یونان اور اسپین جو یورپی قرضوں کے بوجھ تلے دب کر ادھ مؤے ہوگئے ہیں یورپی یونین کی پالیسیوں کو دوش دیتے ہیں کہ وہ ان کی وجہ سے کنگال ہوگئے ہیں اور اب جرمنی ان کی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے ان پر دم گھونٹ دینے والی کفایت شعاری کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے ۔
یونان اور اسپین میں جرمنی اور فرانس سے سخت ناراضگی شدید عداوت اور کشیدگی کی صورت اختیار کر رہی ہے ۔ یہ شروعات ہے یورپ میں اقتصادی جنگ کی ۔اس پس منظر میںیورپی یونین کو امن کا انعام دینا واقعی ایک مذاق ہے۔ پھر نوبل انعام کی کمیٹی کا یہ دعوی کہ یورپی یونین نے یورپ میں امن کو فروغ دینے میں بے مثل مدد دی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوبل کمیٹی کے اراکین نے اپنی آنکھوں پر اندھیاری چڑھا رکھی ہے کہ انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ یورپ نے یوگو سلاویہ کے حصے بخرے کرنے میں کیا اہم رول ادا کیا جس کے نتیجے میں بوسنیا میں مسلمانوں کا قیامت خیز قتل عام ہوا ۔گو سربرنیکا میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں یورپی قیادت کا ہاتھ نہیں تھا لیکن اسے رکوانے اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یورپ نے کچھ نہیں کیا اس لحاظ سے وہ بھی اس قتل عام میں شریک و ممد قرار پاتا ہے ۔ اس تاریخی حقیقت کے پیش نظر آخر یورپی یونین امن کے انعام کی کس طرح حقدار بنتی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت صدیوں پرانی نہیں صرف 30 سال پرانی ہے ۔ پھر کیسی ستم ظریفی ہے کہ یورپی یونین کو امن کا انعام دیا جارہا ہے جب کہ اس کے ممبر ممالک یورپ کے باہر عراق اور افغانستان کی ہولناک اور تباہ کن جنگوں میں ملوث رہے ہیں اور اب بھی یورپ کے ممالک کی فوجیں افغانستان میں بر سرپیکار ہیں ۔ کس برتے پر یورپ کو امن کے فروغ کا علمبردار قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کے سینہ پر امن کا تمغا سجایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے کہ یورپی یونین نے اپنے اقتصادی مفادات کے فروغ کے لیے کس کس طرح افریقہ اور ایشیا کے ممالک کا استحصال کیا ہے اور عالمی بنک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مالی امداد اور قرضوں کے بل پر ان بے بس ملکوں کی زراعت اور معیشت پر مسلط ہو کر ان کی پالیسیسو ں کو اپنے مفاد میں موڑنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجہ میں ان ملکوں میں بے روزگاری گھن کی طرح پھیل گئی ہے اور غربت کے مہلک سایے بڑھ رہے ہیں۔ تو کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ یورپی یونین کو امن کا نوبل انعام دینے کا فیصلہ سخت بھونڈا مذاق ہے ۔