نارویجن نسل پرست مخالف تنظیموں کے بارے میں بیان
لیڈر برائے مخالف نسل پرست تنظیم کاری ہیلینے نے پیر ساندبرگ کے بیان کی مخالفت کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پیر نے نسل پرستی کی مخالفت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے سلسلے میںبیان دیا ہے اس کے مطابق ایف آر پی پارٹی کی موجودگی میں ان تنظیموں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ یہ صحیح نہیں لیکن ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ پیر ساندبرگ نے ازخود اپنے بیان کی تردید کر کے ایک غیر جانبدار جواب دیا ہے ۔ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر ایف آر پی کی پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو پھر بھی ایک آزاد معاشرے میں اقلیتی امور کی بقاء کے لیے تنظیموں کی ضرورت رہتی ہے۔مخالفت کا یہ معاملہ سائوتھ افریقہ میں پیش آنے والے ایک واقعہ کی رپورٹ کے بعد پیش آیا۔اس کے بعد مارٹن اورسل نے یہ مطالبہ کیا کہ مرکزمیں تنظیموں کو دی جانے والی امداد یا تو روک دی جائے یا اس میں کمی کی جائے ۔اس کے بعد ساند برگ نے اپنے اس بیان پر شرمندگی کا اظہار کیا۔لیکن وہ اس بات پر ڈٹے رہے کہ کہ جب سیاسی پارٹیاں نسل پرستی کی مخالفت کا کردار نبھا رہی ہیں تو ایسی صورت میں اس مقصد کے لیے تنظیموں کی ضرورت نہیں۔ان کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں صرف ایس وی اور اے پی پارٹیاں نسل پرستی کے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ ان پارٹیوں کے سیاستدان بھی اسے اہم سمجھیں۔نارویجن معاشر کو مختلف علاقائی نارویجنوں اور تارکین وطن نے مل کر تشکیل دیا ہے۔ایف آر پی کی پارٹی اس وقت نوجوانوں کی دو بڑی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔اسکا مقصد نوجوان نسل میں نسل پرستی کے خلاف کام کرنے کے جذبے کو ابھارنا ہے۔مارت اپالو کو ساند برگ کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ ناروے میں نسل پرستی کے خلاف کام کے لیے تنظیموں کی ضرورت نہیں۔اس ضمن میں کئی ایسے مسائل ہیں جنہیں سیاست دان حل نہیں کر پائے۔ان مسائل کو عوامی سطح پر آگے لانے کا کام یہی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ ان مسائل میں ناروے میں سامر صوبے کے لوگوں کے حقوق ،رومیوں کی واپسی کا مسئلہ اور پناہ گزینوں کے مسائل قابل توجہ ہیں۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ فوری توجہ طلب مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل ہونا چاہی ے تاکہ اقلیتوں کی حالت زار بہتر بنائی جا سکے۔ یہ بات انہوں نے ایک مقامی ملٹی کلچرل اخباری بیان میں کہی۔
yes its wrong