تحریر شازیہ عندلیب
دس برس قبل تک ناروے میں بسنے والے خاندان اپنے بچوں کے رشتے اپنے خاندان میں ہی کرتے ہیں۔اس مقصد کے لیے یہاں بسنے والے خاندان پاکستان میں اپنے آبائی شہروں اور دیہاتوں سے دولہا یادولہن لایا کرتے تھے۔یہ رشتے عموماً ان کے قریبی رشتہ داروں میں ہی ہوتے ۔یہ کئی لحاظ سے فائدہ مند بات تھی۔ سب سے پہلا فائدہ تو مالی فائدہ ہوتا تھا کہ لڑکا یا لڑکی اس شادی کے نتیجے میں آرام سے بیرون ملک سیٹ ہو جاتا تھا۔دوسرے اپنے خاندان کا لڑکا لڑکی ہمیشہ سے والدین کے لیے ایک آئیڈیل رشتہ ہوتا تھا ۔خواہ لڑکے لڑکی کی مرضی ہو یا نہ ہو،دونوں کا مزاج ملے یا نہ ملے ۔ نیا ساتھ چلے نہ چلے مگر بزرگوں کی مرضی ضرور چلے۔یہ نیا بندھن نبھانے کے چانسز کس قدر کم کیوں نہ ہوں مگر والدین ہر قیمت پر دھونس زبردستی سے اپنا فیصلہ منوا کر رہتے۔اس لیے کہ والدین ہمیشہ اولاد کا بھلا سوچتے ہیں۔پھر لڑکی کا معاملہ ہو تو مثل مشہور ہے کہ اپنا ہو گا تو مار کر چھائوں میںڈالے گا۔یعنی کہ مارے گا ضرور!!! غیر ہو گا تو مار کر گھر سے نکالے گا۔مگر تجربے اور حالت نے یہ بات غلط ثابت کر دی۔کئی لڑکے لڑکیاں بغاوت کر کے مرضی کی شادیاں کرنے لگے تو کئی اپنوں کی شادیاں ٹوٹنے اور ناکام ہونے لگیں۔پاکستانیوں کی شادیوں کو جبری شادیوں کا نام دیا گیا۔اس سلسلے میں کئی جرائم بھی ہوئے کئی قتل اغواء اور بغاوت کے واقعات کو میڈیا میں خوب اچھالا گیا ۔
اور ممالک کا تو پتہ نہیں لیکن نارویجن حکومت اپنے ملک میں بسنے والے تارکین وطن کے سماجی معاملات پر گہری نظر رکھتی ہے۔جیسے ہی کوئی سماجی مسلہء کسی کمیونٹی میں جڑ پکڑنے لگتا ہے ۔نارویجن ارباب اختیارتنظیمی اور حکومتی سطح پر سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔پھر اس کے حل کے لیے پراجیکٹ بناتے ہیں اور قانون سازی کرتے ہیں۔اس طرح نارویجن کئی سماجی مسائل کافی حد تک ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔اب سے دسسال پہلے پاکستانی کمیونٹی میں تمام تر تعلیمی اور مادی ترقی کے باوجود قریبی برادری میں رشتے کرنے اور جبری شادی کا رجحان بہت ذیادہ تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ دراصل ہماری کمیونٹی میں شادیاں ہوتی ہی والدینکی مرضی سے تھیں۔پسند کی شادی کو معیوب اور غیر اخلاقی بلکہ نازیبا حرکت سمجھا جاتا تھا۔خواہ اس سارے معاملے میں کوئی غیر اخلاقی بات شامل ہو یا نہ ہو۔حالنکہ ہمرا مذہب اسلام بھی شادی جیسے فیصلے میں لڑکے لڑکی کی مرضی کو ہی واضع طور پر فوقیت دیتا ہے۔مگر مجال ہے جو ہمارے بزرگ اس مذہبی شق پر عمل کرنا شریعت سمجھتے ہوں۔بلکہ اس کے بر خلاف لڑکے لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کرنا ہی نیکی کی علامت سمجھا جاتا تھا،اور لڑکے لڑکی کی ناپسندیدگی کو ایک اجافی خوبی اور فخریہ خوبی سمجھا جاتا۔مگر اب یہ رجحان اتنا ذیادہ نہیں۔اب سوچ میں تبدیلی آ چکی ہے۔یہ تبدیلی صرف باتیں بنانے سے نہیں آئی بلکہ پراجیکٹس بنانے سے قوانین بنانے سے انہیں رائج کرنے سے اور ان پر عمل در آمد کرنے سے آئی ہے۔ان سارے کاموں پر وقت پیسہ اور انرجی خرچ ہوئی ہے تب کہیں جا کر صدیوں سے اس بے غیر منصفانہ سوچ کا خاتمہ ممکن ہوا اور اسکی گرہیں ڈھیلی پڑی ہیں۔پھر اس سوچ نے مغرب سے مشرق کی جانب سفر کیا۔جن لوگوں نے نئی سوچ کو قبول کیا انکی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی آئی۔جو پرانی روش پر ڈٹے رہے ان کی نہ سوچ بدلی اور نہ حالات۔وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں کل کھڑے تھے اور اگر نہ بدلے تو آنے والے کل میں بھی نہ بدلیں گے۔غلامانہ سوچ رکھنے والی غلام مائیں غلام نسلوں کو ہی جنم دے سکتی ہیں۔اور غلامانہ سوچ رکھنے والی نسلیں دنیا میں غلا م قوم بن کر ہی زندہ رہیں گی۔لیکن اب وقت کروٹ لے رہا ہے قدریں بدل رہی ہیں۔سوچیں بدل رہی ہیں تو ہماری قوم کی تقدیر بھی ضرور بدلے گی۔نئی سوچ کا پید ا ہونا اسلام سے بغاوت نہیں بلکہ اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔
اب جبری شادی جیسے واقعات اکّا دکّا ہی ہوتے ہیں یہ اب پرانی باتیں ہو گئی ہیں۔اب لوگ ناروے میں
ہی آپس میں شادیاں کرنے لگے ہیں۔لڑکے لڑکی کی مرضی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ دولہا دولہن لینے کے لیے پاکستان بھاگ بھاگ کر نہیں جاتے ۔ا سلیے کہ اب یہاں ہر طبقے،شہر گائوں اور ذات پات کے پاکستانی آبا دہیں۔آپکو مذہبی گھرانے بھی مل جائیں گے،امیر ترین اور حسین ترین اور ذہین ترین لوگ بھی مل جائیں گے۔یہاں پینتیس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی آباد ہیں۔اس لیے مطلب کا رشتہ ہم مزاج ساتھی ایک معیاری گھرانہ ڈھونڈنا ذیادہ مشکل نہیں۔مگر اب مسائل نے اور رخ اختیا رکر لیا ہے۔
پہلے جب پاکستان سے لڑکا لڑکی یہاں آتے وہ مقامی زبان سیکھتے جاب ڈھونڈتے اس دوران اگر نا چاقی ہو جاتی تو اسے ماحول نہ سمجھنے کی وجہ قرار دیا جاتا۔نارویجن معاشرے میں لڑکا ہو یا لڑکی اسے گھر چلانے کے لیے جاب کرنی پڑتی ہے۔
Assalaam Aleikum Shazia ji apka article parha shadion ke bare me, bohot acha likha he apne, balke abhee bhee logon me zaat paat ka bheej dimagh me bhoya howa he jisko nikalna he hamne. Aj ham jis meeting me gay the wahan yeh dekh ke acha laga ke kafee ab zaat paat ko ahmyat nahee dete but still kuch logon kee soyee abhee bhee wahan hee atkee howee he. Kher time to lage ga. Keep the good work up and may Allah bless you ameen.
Aslam o eleikum Ghazala,
Article parhnai or srahnai ka behad shukriya .Aap thik kehti hain mosalsal koshish sai kai msail hal ho jatai hain.agar ham sab mil kar koshish karain to kai msail khatm ho jaeyn.
Aapki koshishon ki to mai pehlai hi dil sey motraf hoon
Thanks