نارویجن پناہ گزین کیمپوں میں نشے کی لت
پناہ گزین جس قدر طویل عرصہ کیمپ میں گزارتے ہیں ان کے نشے کی لت میں مبتلاء ہونے کے امکانات میں بھی اسی قدر اضافہ ہو تا ہے۔اس بات کا انکشاف ناروے میں ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا۔میں نے نشے میں مبتلاء لوگوں کے لیے ہسپتالوں میں کام کیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ کئی لوگ یہاں آنے کے بعد شراب اور دوسرے نشے کی لت میں مبتلاء ہو جاتے تھے۔جبکہ اس سے پہلے ان کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔یہ بات نارویجن محقق ایسپن فریگ نے کہی۔انہوں نے اپنی تحقیقی رپورٹ یورگن لنڈ کے ساتھ مل کر مرتب کی۔
اس رپورٹ کی تیاری کا مقصد نشے کی لت کے اسباب تلاش کرنے اور اس سے چھٹکارے کے حل تلاش کرنا تھا۔نشے کے اسباب کے بارے میںایسپن نے کہا کہ نشے میں مبتلاء لوگ خوف زدہ تھے اور نفسیاتی صحت بھی ٹھیک نہ تھی۔جبکہ عام زندگی میں تحفظ ملتا ہے۔جسکی وجہ دوست احباب اور رشتہ دار ہوتے ہیں۔
ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پناہ گزینوں کااپنے خاندان سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔کیونکہ کیمپ شہروں سے دور ہوتے ہیں۔یہ پناہ گزین اپنے بارے میں منفی تصورات رکھتے ہیں اور مستقبل کا خیال انہیں عدم تحفظ سے دوچار کر دیتا ہے۔اس کے علاوہ انہیں کیمپوں میں ذہنی مسائل سے نبٹنے کے لیے کوئی رہنمائی نہیں دی جاتی۔انتظار کی مدت طویل ہونے کی صورت میں کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔