ناروے سے محبت کی خاطرنام کی تبدیلی

عالمسن یہ ہے اب نیا نام جوملامحکمہء ٹیکس سے ۔محکمہء کی جانب سے بھیجی گئی میل میں اس در خواست کا جواب تھا جو کہ نام کی تبدیلی کے سلسلے میں فیض عالم نے ماہ اکتوبر میں جمع کروائی گئی تھی۔
میں نے یہ نام نارویجن ملک اور نارویجنوں کی محبت میں تبدیل کیا ہے۔میں پاکستانی پس منظررکھنے والا مسلمان ہوں اور قرآن میں ارشادباری تعالیٰ ہے کہ تم جس معاشرے میں رہتے ہو اسکا خیال رکھو۔
فیض عالمسن بین لاقوامی شہرت یافتہ مسلمانوں کی تنظیم منہاج القرآن سے وابستہ ہیں۔اس تنظیم کے لیڈر طاہر القادری کینیڈین نیشنلٹی رکھتے ہیں اور اسلامی انتہا پسندی کے خلاف فطویٰ بھی دے چکے ہیں۔ ذاتی نام بدلنے کا مقصد ناروے میں بڑہتی ہوئی نسلی منافرت کو کم کرنا ہے۔اسلام ان چیزوں سے سختی سے منع کرتا ہے۔ہمیں بحیثیت مسلمانوں کے نارویجن قوانین کی عزت کرنی چاہیے۔تاکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی آ سکے۔
عالمسن نے کہا کہ کسی کو اچھا لگے یا برا میں ہرقسم کا رویہ برداشت کرنے کے لیے تیارہوں۔روس میں بھی باپ یا خاندانی نام کے آخرمیں مقامی نام جوڑے جاتے ہیں میں نے اپنے نام کے آخری حصے کے ساتھ نارویجن نام جوڑکر نارویجن معاشرے سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
سویڈن کے شعبہء تحقیق کے مطابق تارکین وطن میں نام کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے۔نام کی تبدیلی ملازمت حاصل کرنے اور مالی معاملات میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو کہ چھ سو ایسے لوگوں پر کی گئی تھی جنہوں نے نام تبدیل کیے تھے اس وجہ سے ان کے مالی حالات بہت بہتر ہو ئے تھے۔
فیض عالمسن نے بتایا کہ انہیں نام کی تبدیلی پر خاندان کا مکمل تعاون حاصل ہے۔اس لیے کہ م انسان ایک دوسرے معاشرے میں رہتا ہو تو اسکی سوچ اور جذبات نئے آنے والے تارکین وطن سے یکثرمختلف ہوتے ہیں۔مقامی نام کی وجہ سے انسان کو کم معاشرتی منافرت کا سمانا کرنا پڑتا ہے اور ملازمت ملنے کے چانسز بھی بڑھ جاتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں عالمسن نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ مختلف وجوہات کی بناء پر نام تبدیل کرتے ہیں لیکن کسی دوسرے معاشرے میں کامیابی سے رہنے کے لیے صرف نام کی تبدیلی ہی ضروری نہیں بلکہ کئی دوسرے معاملات بھی اہم ہیں۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں