شازیہ عندلیب
ناروے
بچے بھی میرے دیس کے ہشیار ہو گئے
ہیرو اب ان کے حکومتی سر کار ہو گئے
ابھی اخبار جنگ کی ایک خبر کی سرخی نے مجھے چونکا دیا کہ
“شفقت محمود بچوں کے وزیر اعظم منتخب”
میں سمجھی کہ شائید پاکستان میں بھی ناروے کی طرح قیام پاکستان کے بعد بچوں کی وزارت قیام پا گئی ہے۔میں حیرت اور خوشی کے بحر بیکراں میں ڈبکیاں کھاتی خبر پڑھتی جاتی تو پتہ چلا کہ بچوں کے وزیر نہیں بلکہ وزیر اعظم کا قصہ بھی بچوں کا کھیل ہی نکلا۔در حقیقت پاکستانی بچوں نے وزیر تعلیم شفقت محمود کو یہ اعزاز اسکولوں میں چھٹیاں ملنے کی خوشی میں دیا ہے بہت سے دوسرے اعزازات اور القابات کے ساتھ جن میں وزیر تعلیم کو دلوں کا ہیرو،دلوں کا راجہ بھی قرار دیا گیا ہے، بلکہ ایک بچے نے تو انکی تاجپوشی کرتے ہوئے انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ترقی دیتے ہوئے بادشاہ ہی قرار دے دیا۔یہ سب بچوں کے شرارتی چٹکلے تھے۔ان چٹکلوں نے ہمارے وزیر با تدبیر نے کیسا محسوس کیا اسکا ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں ہوا۔اسکی بڑی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ اقدام انہوں نے وطن عزیز کے پیارے بچوں کی صحت کے تحفظ کی غرض سے اٹھایا ہے۔ جبکہ معصوم بچے اسکول کی چھٹیوں کو محض تفریحی چھٹیاں سمجھ کر خوش ہو رہے ہیں۔انہیں حالات کی سنگینی کا علم نہیں کہ ہمارا وطن اور ہم وطن اس وقت کس کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔
خبر کی تفصیل پڑھنے کے بعد اس بات سے یہ خوش فہمی دور ہوئی کہ پاکستان میں بچوں کی وزارت قائم نہیں ہوئی ناروے کی طرح۔ لیکن درحقیقت ہمیں بھی اسکی ضرورت ہے۔عمران خان جہاں ناروے کے دیگر قوانین کی مثالیں استعمال کر رہے ہیں وہیں حالات بہتر ہونے پر بچوں کی وزارت بھی قائم کرنے کے لیے ضرور سوچیں کیونکہ بچے ہمارے ملک کا مستقبل ہے۔ انکے اور انکی ماؤں کے حقوق اور تحفظ کے بغیر قوم کی ترقی ناممکن ہے۔
یہاں ناروے میں اس وزارت کی وجہ سے بچوں کو پیدا ہونے سے لے کر سولہ برس تک کی عمر تک
ان بچوں کے علاج معالجہ تعلیم تربیت اور تحفظ تک کی ذمہ داری حکومت لیتی ہے۔ یہ نظام دیگر یورپین ممالک میں بھی کچھ مختلف انداز سے رائج ہے مگر ناروے اور کینیڈا اس معاملے میں سب سے ٹاپ پر ہیں یعنی ان دو ممالک میں بچوں کو دوسرے مغربی ممالک کی نسبت ذیادہ حقوق حاصل ہیں۔مثلاً بچے کی پیدائش پر ماں کو ملنے والی رقم ذیادہ ہے جبکہ ماں اور باپ دونوں کو بچے کی دیکھ بھال کے لیے ایک سال تک کی چھٹی اور دیگر مراعات بھی ذیادہ ہیں۔سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ناروے جس کا شماراس وقت صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکنالوجی سب سے ذیادہ ترقی یافتہ ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسکا شمار ان ممالک میں بھی ٹاپ پر ہے جہاں سب سے ذیادہ بچے اور بڑے کتابیں پڑھتے ہیں۔ اس لیے یہاں کے بچے ذیادہ ذہین باشعور اور قانون پر عمل کرنے والے ہیں جبکہ طویل عمر کے صحتمند بزرگوں کی اوسط بھی یہاں ذیادہ ہے۔پچھلے دنوں ناروے کی سب سے طویل عمر عورت کی وفات ہوئی جس کی عمر ایک سو بارہ برس تھی جبکہ اس وقت ناروے کی طویل عمر خاتون ماریا انتھونی کی عمر ایک سو دس برس ہے اور وہ اخبار بھی پڑھتی ہیں۔ بہر حال مقصد اس ذکر کا یہ ہے کہ جس ملک و قوم میں بچوں اور ماؤں کے اس قدر حقوق ہوں ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہو وہ قوم کیوں نہ صحتمند اور ترقی یافتہ ہو گی۔باقی تھوڑی بہت خامیاں تو ہر قوم میں ہوتی ہیں لیکن یہاں انکی شرح بہت کم ہے۔
تاہم پتہ چلا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ماؤں کی آسانی کے لیے کوئی نیا قانون بنایا ہے جو کہ ایک بہت احسن اقدام ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کب عمل درآمد ہوتا ہے اور کون کون سی مائیں اس نئے قانون سے مستفید ہوتی ہیں یا پھر یہ قانون بھی پہلے قوانین کی طرح صرف کاغذی کاروائی بن کر رہ جائے گا۔خیر فی الحال تو اس وبائی مرض سے نبٹنا ہے پھر دوسری آفتوں سے بچنا ہے تب کہیں جا کر بچوں کی وزارت کی تجویز بھی قومی اسمبلی میں دی جا سکتی ہے۔فی الحال تو میری طرف سے بھی پاکستانی بچوں کو بچکانہ وزیراعظم شفقت محمود مبارک ہوں۔۔مگر اس بارے میں وزیر تعلیم کیا کہتے ہیں کوئی بیان سامنے نہیں آیا وہ تو ایسے چپ بیٹھے ہیں جیسے پاکستانی اسکولوں میں پہلے زمانے میں بچے کلاس میں منہ پر انگلی رکھ کر چپ بیٹھا کرتے تھے۔