تحریر شازیہ عندلیب
ناروے کو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کا پر امن ملک قرار دیا گیا تھا۔اس لیے کہ اس نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا۔اسی لیے سویڈش سائینسدان اور ایٹم کے موجد الفریڈ نوبل نے جب نوبل پرائز دینے کا ارادہ کیا تو اس نے اس کام کے لیے ناروے کا نام منتخب کیا۔اس دن سے لے کر آج تک ناروے پوری دنیا کے لائق اور قابل افراد میںہر سال نوبل پرائز تقسیم کرتا ہے۔الفریڈ نوبل کا یہ فیصلہ بالکل درست تھااور انتہائی دور اندیشی پر مشتمل تھا۔بعد میں آنے والے ق تنے ثابت کردیا کہ ناروے دنیا کی سب سے ہمدرد قوم ہے ۔نارویجن حکومت سے لے کر انفرادی سطح تک اتر کر دیکھیں تو آپکو ہر شخص ہمدرد دل کے ساتھ ایک دوستانہ مسکراہٹ لیے مسکراتا نظر آئے گا۔موجودہ حکومت کو انتخاب سے پہلے ایک متعصب حکومت خیال کیا جاتا تھا لیکن عملی میدان میں کوئی تعصب دیکھنے میں نہیں آیا۔یہاں کی روزمرہ زندگی میں ہمدرسی اور مدد کا یہ حال ہے کہ اگر سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے کوئی انسان تو کیا جانور بھی زخمی ہو جائے فوراً ایمرجنسی میں کال کی جاتی ہے۔جائے حادثہ پر بھی ایک شخص ممکنہ مدد دینے کی کوششکرے گا۔یہی وجہ ہے کہ نارویجن جانور بھی اتنے ہمدرد ہیں کہ کسی گھر میں آگ لگ جائے تو کتے بھونک کر مالک کی جان بچاتے ہیں تو اپنے پلوں کو آگ بجھانے والی گاڑی میں لے جاتے ہیں۔تعصب ہے یہاں بھی جرائم بھی ہوتے ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں دنیا کی ہمدرد ترین قوم بستی ہو۔پوری دنیا میں ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانے والی قوم ہر غریب اور مظلوم ملک و قوم کی مدد کرنے والے ملک میں دہشت گردی جیسی سنگین واردات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
ناروے دنیا کے ہر ملک کیمستحق پناہ گزینوں کو پناہ دیتا ہے۔یہاں ان کو انسانی حقوق کے ساتھ انکے جان و مال اور عزت کا خیال رکھا جاتا ہے انہیں ہر طرح کا تحفظدیا جاتا ہے۔چاہے پناہ گزین مشرق کا ہو مگرب کا ہو کالا ہو گورا ہو،مسلمان یا کافر ہو ۔ناروے میں پناہ کے دروازے ہر مظلوم کے لیے کھلے ہیں۔شام کے پناہ گزین ابھی تک ناروے آ رہے ہیں۔ جن فلسطینیوں کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو گئی ہیں انہیں ان حالات میں واپس جانے سے روک دیا گیا ہے۔اگر ایسے ملک کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو یہاں بسنے والے ہر غیر ملکی اور بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کا اولین فرض بنتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف نہ صرف خود ساتھ دے بلکہ اپنے ملک کے لوگوں کو بھی اسکی ترغیب دے۔اسلیے کہ دہشت گردی چاہے ہمارے وطن میں ہو یا کہیں اور ہمارا مذہب اور اکلاق اس بات کی پر زور مخالفت کرتا ہے ۔دین اسلام دنیا میں امن کا پیغام بن کر آیا ہے۔ہتھیار اٹھانے اور جہاد کرنے کا حکم ظالم دشمنوں کے لیے ہے دوست اور ہمدرد اقوام کے لیے نہیں۔ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اسلام کی جو غلط تصویر پیش کی جارہی ہے عالمی میڈیا میں وہ غلط ہے۔اس لیے ناروے جیسا ملک جس نے ہمیشہ پاکستان ک مشکل وقت میں بھی اس کے ساتھ ہمدردی کی اسے اس وقت تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔میی تمام پاکستانیوں اور پاکستانی تنظیموں سے بھر پور گزارش ہے کہ وہ اس موقع پر ناروے کا ساتھ دیں۔کہ ناروے واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے فلسطینی حملوں کی مذمت کی اس لیے ہم سب کو بھی چاہیے کہ اس وقت اس دنیاکی پر امن قوم کا ساتھ دیں۔