ناروے میں شریعت کا نفاذ
ناروے میں شرعی احکامات کا نفاذ کرنے والوں کے جواب میں ہیگے السٹائن نے نارویجن اخبار میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ناروے میں بسنے والی آج کی عورت کا موازنہ سن انیس سو تئیس کی عورتوں سے کیا جائے تو ہمیں بہت فرق پتہ چلے گا۔اس زمانے میں عورتیں شام ڈھلے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔کسی مرد سے اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی تھیں۔کسی رشتہ دار مرد کے بغیر گاڑی نہیں چلا سکتی تھیں۔اب کئی دہائیوں کے بعد یہ خواتین اپنے فیصلے خود کرنے لگی ہیں۔اب وہ وقت گزر گیا جب جمعہ کی رات کو یہ حساب کتاب کیا جاتاتھا کہ ایک عورت کتنے کلو لپ اسٹک یا گولیاں ہضم کر سکتی ہے۔وہ حالت جو جنگ عظیم میں یا سن ساٹھ میں تھے آج ناروے میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اصل بات یہ ہے کہ بہتر مادی حالت میں انسان کی ترجیحات سر اٹھانے لگتی ہیں۔ورنہ اس سے پہلے ناروے میں مذہب اور ترجیحات کے بارے میں اتنا بحث مباحثہ کبھی نہیں ہوا تھا۔کیا ناروے میں موجود اسلامی قوانین کا موازنہ ایران یا سعودی عرب کے اسلام سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک جانب تو مسلمان بیروزگاری الائونس لے رہے ہیں اسٹیٹ سے اور دوسری جانب اسی اسٹیٹ کے خلاف باتیں بنا رہے ہیں۔