نارویجن اخبار ویجی کے مطابق ماہ جون میں331پناہ گزین بچوں کی درخواستیں دائر کی گئیں۔ جس میں سے 47فیصد بچوں کو
نارویجن امیگریشن کی جانب سے جواب دیا گیا ۔ اس جواب میں بتایا گیا کہ اٹھارہ سال کی عمر پوری ہوتے ہی بچے اپنے ملک واپس چلے جائیں گے جبکہ 2016ء کے مقابلے میں اس سال 14فیصد بچوں کو واپس بھیجا گیا۔ پچھلے سال موسم خزاں میں ناروے میں پناہ گزین بچوں کی تعداد اور پائے جانے والے بچوں میں حادثات اوربے چینی بہت زیادہ تھی جو کہ کیمپ کے سر براہ کے لیے کافی تشویشناک تھی اور اس کے بارے میں محکمہ امیگریشن بھی بہت پریشان تھا اور اس سلسلے میں بچوں میں سکول اور پڑھائی کی عدم دلچسپی ، خودکشی اور ڈپریشن کے رجحانات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ اس سوال کے پیش نظر یندال نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ کم عمر بچوں کی رہائش اور پناہ کے لیے بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں :ایک تو افغانستان کی غیر یقینی صورت حال اور دوسری وہاں پر عدم تحفط ۔ اصولی طور پر کم عمر یا اٹھارہ سال کی عمر پوری ہونے والے افغانی بچوں کی واپسی اس وقت تک نہیں ہونی چاہئے جب تک کہ یہ نہ دیکھ لیا جائے کہ افغانستان میں ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی خاندان یا فرد موجود نہیں ہے۔اس چیز کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے ۔