ناروے میں پہلی نسل کی خواتین کے مسائل
ناروے کی ڈائری
مسرت افتخار
ناروے میں پہلی نسل کی خواتین وقت ،حالات اور عمر کے لاتعداد مسائل میں گھر گئی ہیں۔یہ وہ پہلی نسل ہے جس نے شوہروں اور اولاد کی خاطر گھروں میں رہ کر چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دی ہے۔خاوند آٹھ گھنٹے گھر سے باہر کام کر کے آتا تو تھکا ہوا ہوتا۔بیٹا یا بیٹی اسکول یا کالج سے تھک کر آ جاتے۔ایسے میں ایک خاتون کا جو ماں ہے بیوی ہے وہ گھر میں چوبیس گھنٹے بھی ڈیوٹی دے کر تروتازہ لگتی۔اس امید پر کہ ایک روز کام کا بوجھ کم نہیں تو ختم ہو جائے گا۔اور سہانے مستقبل کی امید شائید اسے تھکنے نہ دیتی تھی۔وہ مسلسل جدو جہد میں لگی رہتی اگر کبھی گھر کے مالی حالات خراب ہوئے تو وہ گھر سے باہر کام پر بھی جانے لگی۔اگر بزنس میں خاوند کو بغیرتنخواہ کے ورکر کی ضرورت پڑی تو آسامی کو پر کرنے کے لیے بھی بیوی کا نام نکل آتا۔اندر باہر کی محنت اور جہد مسلسل نے پہلی نسل کی عورت کو ایک مجاہدہ بنا دیا۔مگر اس کے صلے میں اسے کچھ بھی نہیں ملااور اب تو اسے گھر کا ایک بے کار فرد سمجھا جاتا ہے۔وہ خاتون جو ساری ساری رات جاگ کر خاوند اور بچوں کی تیمارداری کرتی رات کو دوا پلاتی، سر دباتی ،پاس بیٹھتی ،پانی لاتی اور جب خود بیمار ہو گئی تو اس کی تیمارداری تو درکنار دوائی لانا بھی مسئلہ بن گیاکہ یہ کسی کو یاد ہی نہیں رہتا۔اس پہلی نسل کی خاتون کا ایک اور مسئلہ عمر کے ساتھ بڑھا۔چونکہ ساری عمر گورنمنٹ کی ملازمت نہیں کی تھی اس لیے پنشن کے پوائنٹ ہی نہیں بنے۔اور جب پنشن کے پوائنٹ نہیں بنے تب عورت کو صرف بنیادی حقوق کے طور پر ایک مخصوص رقم گزارے کے لیے ملتی۔وہ بھی چونسٹھ سال کی پنشن کی عمر میں ۔یا پھر کوئی خاتون کا مستقل ڈاکٹر مختلف بیماریوں کے میڈیکل ٹیسٹ اور رپورٹس سے ی یہ ثابت کر دے کہ خاتون مختلف بیماریوں کی وجہ سے ملازمت نہیں کر سکتی تو اس خاتون کو پنشن سے پہلے بیماری کی وجہ سے پنشن مل جاتی ہے۔پہلی نسل کی خاتون ہر طرح سے گھاٹے میں رہ گئی۔اولاد جوان ہو کر اپنے اپنے گھروں والی ہو گئی۔خاوند کو پنشن ملی تو وہ تین سے چھ ماہ کے فیملی وزٹ پر پاکستان آیا ہے۔کیونکہ پنشن تو ہر جگہ اسے میسر ہے۔ان حالات میں ذہنی جسمانی طور پر شکستہ خواتین ہر طرح کی بیماریوں کا شکار ہو گئیں۔ذہنی طور پر اس طرح کہ تمام عمر امیدوں کے سہارے گزار دی۔لیکن یہ امیدیں ایک ایک کر کے ٹوٹ گئیں۔اس صورتحال میں پہلی نسل کی خاتون مختلف بیماریوں اور اکیلے پن کا شکار ہو گئی۔پاکستان اس لیے نہیں جاتی کہ بقول ان کے پلے کچھ نہیں ہے۔کیسے وہاں گزارہ کرے گی اور ماں باپ رہے نہیں۔بھائی بہن اپنے گھروں کے ہو گئے۔کچھ جیب میں ہو تو جس کے بل پر رہ سکے وہاں۔لہٰذا یہ فیملی رابطہ بھی کٹ گیا۔ ناروے میں بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے سوشل ایکٹیوٹی نہ ہونے کی وجہ سے دوست احباب بس یادوں میں ہی رہ جاتے ہیں۔اولاد سے نہ کبھی ماں کا جی بھرتا ہے نہ اولاد کبھی ماں سے مایوس ہوئی ہے۔نہ کبھی ماں اولاد کا شکوہ کرتی ہے کیونکہ ماں کا اولاد کے ساتھ ضرورت کا رشتہ نہیں ہوتا۔اسی لیے وہ آخر تک ماں رہتی ہے۔اولاد مختلف رشتوں میں بٹ جاتی ہے اور حالات اولاد کو جدھر لے جائیں اولادبھی اپنے حالات کے تحت زندگی گزارتی ہے۔بیٹا ہے یا بیٹی مختلف رشتوں میں بٹنے لگتے ہیں۔مگر ماں کبھی تقسیم نہیں ہوتی۔یہ اور بات ہے اس آخری عمر میں ماں کا گزارہ اولاد کی محبت سے ہوتا ہے۔ نارویجن معاشرہ چونکہ فیملی کا معاشرہ نہیں ہے یہاں لوگ اکیلے رہنے اور جینے کو ترجیح دیتے ہیں۔بیٹا یا بیٹی اگر اٹھارہ سال کا ہو جائے تو اسے نارویجن حساب سے گھر کا خرچہ دینا ہوتا ہے ورنہ وہ گھر سے چلے جائیں۔اکثریت بچوں کی چلی جاتی ہے۔اس لیے نارویجن والدین اپنی زندگی اپنے لیے گزارنے کے عادی ہیں۔پاکستانی ماں کی طرح اپنی زندگی دوسروں کے لیے نہیں گزارتے۔اس لیے اولڈ ہومز میں سب کو دوستوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا لطف آتا ہے۔یہاں پر اپنی عمر کے دوست بھی بن جاتے ہیں لہٰذا نارویجن زندگی کے ہر موڑ اور رائونڈ کو خوشی سے جیتے ہیں۔اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار کر زندگی کا حق ادا کر دیتے ہیں۔اور ہم پاکستان سے آئے لوگوں کو یہ بات جب وقت اورحالات سکھا تے ہیں اور سمجھاتے ہیں اس وقت زندگی گزر چکی ہوتی ہے۔اور وقت بھی گزر گیا ہوتا ہے۔لہٰذا جو وقت پر وقت کی بات نہیں سنتا وقت اس کو پیچھے چھوڑ کر گزر جاتا ہے۔
بہت خوب مسرت آپی آپ نے بہت حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔یہ مسئلہ صرف ناروے میں بسنے والی پہلی نسل کا ہی نہیں رہا ہمارے معاشرے میں بزرگوں کی ناقدری کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے ۔اولاد تو اولاد مگر آخر شوہر جس پہ ایک عورت اپنی تمام زندگی قربان کر دیتی ہے وہ کیوں بڑھاپے میں آ کر بے رخی کرتا ہے۔ان مسائل کا کوئی حل بھی تو ہونا چاہیے!!!!!
آپکے لکھنے کا انداز بہت موثر اور جاندار ہے آپ نے ایک معاشرتی مسئلے کا بڑے مربوط انداز میں احاطہ کیا ہے۔
السلام علیکم،
یقینا یہ کہانی احساسات کو مزید لطیف کر گئ۔ لیکن شعور اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ اس عورت کا شوہر اپنی پنشن لیکر اکیلا کیسے پاکستان جا سکتا ہے؟ پہلے خود کو تسلی دے لی کہ کہانی میں دونوں الگ الگ انفرادی کردار ہیں۔ مگرسیاق و سباق کچھ الگ ہی منظر پیش کرتے ہیں۔
شاہ جی
Ji shah sahab mai ap k comments Mussarrat Api ko pohncha don gi is gozarish k sath k wo is bat ka jwab dain.
Thanks fo reading this article
shazia
بہت عمدہ تحریر ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے
طیب
ہ مسرت صاحبہ کی فکر انگیز تحریر ہے- ان ممالک میں ابھی تو پھر بھی ہماری دوسری نسل میں کچھ اقدار باقی ہیں جو رفتہ رفتہ مفقود اور عدوم ہوجائینگی – کچھ لوگ اس نہج پر سوچنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے اولڈ ہومز بنائے جائیں مالی تحفظ ان ممالک میں بہت اہم ہوتا ہ ہے-Abida Rahmani
Abida Rahmani