ناروے : نقل وطن اور تارکین وطن
اوسلو میں ناروے کی پارلیمنٹ کا ایک منظر
از: ہما نصر ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ۔
اسکینڈے نیویا کے ممالک ڈنمارک، سویڈن اور ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کثیر تعداد میں رہتے ہیں اور اب ان پاکستانیوں کی تیسری نسل یہاں پروان چڑھ رہی ہے جب کہ پہلی نسل کے وہ پاکستانی جو سنہ ١٩٦٨ کے وسط سے لے کر سنہ ١٩٧٢ کے آخیر تک ان ممالک میں روزگار کے لیے آئے، اُن کی اکثریت اب پنشن کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔
ان اسکینڈے نیوین ممالک میں ہجرت کرکے آنے والے، دوسری اقوام کے تارکین وطن بھی آباد ہیں ۔ یہاں ہم ’’ ناروے میں تارکین وطن ‘‘ پر ایک ’’ طائرانہ نگاہ ‘‘ ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ آن لائن جریدے ’’ اردو ہمعصر ڈاٹ ڈی کے ‘‘ کی یہ کوشش آپ کو کیسی لگی؟ اس بارے میں ہم آپ کی رائے یا تبصرے کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔
ہما نصر ۔ نائب مدیرہ ، ’’ اردو ہمعصر ڈاٹ ڈی کے ‘‘ ۔
اسکینڈے نیویا کے ممالک میں تیل کی دولت سے مالا مال اور صنعتی ترقی میں ہر لمحہ پیشرفت کرنے والے ملک، ناروے میں مقیم مخلتف تارکین وطن برادریاں دنیا کے دو سو انیس ممالک اور آزاد و خود مختار علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ تارکین وطن، مہاجروں کے طور پر یا محنت مزدوری کرنے کے لیے افرادی قوت کے طور پر یا پھر بطور طالب علم یہاں آئے ہیں ۔ ان میں سے کثیر تعداد ان تارکین وطن کی بھی ہے جو ناروے میں پہلے سے مقیم اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے یہاں مستقل طور پر منتقل ہو چکے ہیں ۔
* ناروے میں تارکین وطن اور تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہونے والوں کی فی الوقت مجموعی تعداد، نارویجیئن محکمہ شماریات کے مطابق، چھ لاکھ پچپن ہزار ہے جو کہ کل ملکی آبادی کا تیرہ عشاریہ ایک فیصد حصہ ہے ۔ ان میں پانچ لاکھ، سنتالیس ہزار تو ( پہلی نسل کے) تارکین وطن ہیں اور باقی ایک لاکھ، آٹھ ہزار، وہ ہیں جو تارکین وطن والدین کے ہاں ناروے ہی میں پیدا ہوئے ۔
* ناروے میں ان تارکین وطن کو اگر عالمی جغرافیائی تناظر میں دیکھا جائے تو ان میں سے ، دو لاکھ چورانوے ہزار کا تعلق یورپی ممالک سے ہے یعنی وہ یورپی پس منظر رکھتے ہیں ۔ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار ایشیائی پس منظر کے حامل میں ، افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ساٹھ ہزار ہے اور، اٹھارہ ہزار تارکین وطن ، جنوب وسطی امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ گیارہ ہزار کے قریب نارتھ امریکہ سے ہیں ۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات بڑے اعتماد و یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ناروے میں تارکین وطن کا سب سے بڑا گروپ، یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کا ہے ۔
* ناروے میں تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا شدہ، ستاون ہزار ایک سو ( تارکین وطن پس منظر کے حامل نوجوانوں) کا تعلق ایشیائی خاندانوں سے ہے جن میں پاکستانی سر فہرست ہیں ۔ انتیس ہزار کے والدین یورپی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، انیس ہزار پانچ سو افریقہ سے اور دو ہزار چھ سو کے تارکین وطن والدین ساؤتھ و وسطی امریکہ سے ہیں
*ناروے میں پاکستان، پولینڈ، سویڈن، جرمنی اور لتھوینیا اور صواملیہ کی تارکین وطن برادریاں اپنی تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں ان میں سے ٣٣ فیصد تارکین وطن اب ناروے کی شہریت رکھتے ہیں ۔
*سنہ ١٩٩٠ سے لے کر سنہ ٢٠١٠ کے آخیر تک غیر نارڈک یعنی اسکینڈے نیویا کے ممالک سے باہر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے، چار لاکھ، اکہتر ہزار شہریوں نے ناروے میں ہجرت کی جہاں انہیں اقامتی پرمٹ جاری کئے گئے ۔
ان میں سے بائیس فیصد کو بطور مہاجرین، اٹھائیس فیصد کو افرادی قوت کے طور پر اور گیارہ فیصد کو حصول تعلیم کے لیے اقامتی ویزے دیئے کیے گئے ۔ اسی دوران خاندانوں کو یکجا کرنے اور قدرے عمر رسیدہ تارکین وطن کے ساتھ رہنے کے لیے ناروے آنے اور اقامتی پرمٹ حاصل کرنے والوں کی شرح تائیس فیصد تھی ۔ اور صرف پندرہ فیصد ایسے غیر ملکی تھے جنہیں اس بنا پر اقامتی پرمٹ جاری کئے گئے کہ انہوں نے ناروے میں ہی شادیاں کر لیں تھیں ۔
کلیدی اعداد و شمار
*ناروے میں تارکین وطن کی کل تعداد، پانچ لاکھ، سنتالیس ہزار ہے اور ناروے میں تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئے افراد کی تعداد ایک لاکھ، آٹھ ہزار ہے ۔ یہ دونوں گروپ ملک کر ناروے کی کل آبادی کا تیرہ عشاریہ ایک فیصد بنتے ہیں
* تارکین وطن ناروے کی سبھی بلدیات میں اور یوں ملک کے طول و عرض میں رہائش رکھتے ہیں ۔ دارالحکومت اوسلو کی بلدیہ میں اقامت پذیر تارکین وطن کی شرح ٢٣ فیصد ہے ۔ دیگر الفاظ اوسلو بلدیہ میں ایک لاکھ، انتالیس ہزار تارکین وطن رہائش رکھتے ہیں ۔
* چوالیس فیصد تارکین وطن کا تعلق ایشیا، افریقہ یا جنوب وسطی امریکہ سے ہے ۔
* ہر دس میں سے دو تارکین وطن ، کم سے کم پچھلے بیس سال سے ناروے میں رہ رہے ہیں اور، ہر دس میں سے چار تارکین وطن صرف چار سال یا اس سے کم عرصہ سے یہاں رہ رہے ہیں ۔
* ناروے میں پیدا ہوئے ترپن فیصد، تارکین وطن والدین کی اولادیں ہیں جو ایشائی النسل ہیں ۔ تارکین وطن پس منظر رکھنے والے ان نوجوانوں میں سے اٹھارہ فیصد کی عمریں بیس سال یا اس سے کچھ زیادہ ہیں ۔