سال دو ہزار تیرہ (2013)کے وسط تک ناروے نے پچھلے برس کے مقابلے میں آدھے سال کے دوران چھ فیصد 6% کے تناسب سے ذیادہ خوراک برآمد کی ہے۔جسکا تخمینہ 21.8 بلین نارویجین کرونا لگائی گئی ہے۔اس برآمدی خوراک میں بنیادی خوراک جیسے پھل،سبزیاں اور ڈیری پراڈکٹس شامل ہیں۔جبکہ گوشت کی بر آمد میں پچھلے بر س کی نسبت نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
جبکہ زرعی اجناس کی بر آمد میں پچھلے برس کی نسبت دس فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔اس میں ذیادہ خوراک بند ڈبوں اور پیکٹوں میں محفوظ ہے۔
مختلف گرم زرعی ممالک ناروے کے بڑے برآمدی ڈیلر ہیں۔ ان میں پاکستان انڈیا اور دیگر افریقی ممالک سر فہرست ہیں۔خوراک بر آمد کرنے کی مد میں سالانہ تاجران کئی بلین کرونے کا ٹیکس حکومت کو ادا رتے ہیں۔گو کہ اشیائے خور دو نوش کی مارکیٹ میں پاکستانی اشیاء عام دیکھی جا سکتی ہیں۔ان میں اجناس سبزیاں اور پھل کاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
پاکستان کے آم یہاں بھی بہترین سمجھے جاتے ہیں جبکہ موسم سرماء میں پاکستانی مالٹے اور کینو کی بھی بہت مانگ ہے۔ مگر ناقص ایکسپورٹ پالیسی اور کوالٹی کنٹرول خراب ہو نے کی وجہ سے یہ اشیاء کچھ عرصہ بعد غائب ہو جاتی ہیں۔پھر ان اشیاء کی جگہ دوسرے ممالک کی پراڈکٹس لے لیتی ہیں جو کہ پاکستانی کمیونٹی کے لیے باعث تشویش ہے۔تجارت میں دلچسپی رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے ناروے ایک اہم تجارتی منڈی ثابت ہو سکتا ہے۔تاہم اس وقت تجارتی معاہدوں میں ناروے کی مارکیٹ میںترکی چھایا ہوا ہے۔پاکستانیوں کو بھی اس فیلڈ میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی تجارتی کمپنیاں اس فیلڈ میں آئیں اور بہترین کوالٹی پراڈکٹس متعارف کروا کر اپنی ساکھ بنائیں۔