ناروے کی ڈائری

کالم نگار مسرت افتخارحسین

اوسلو
سترہ مئی کے دن ہر نارویجن بچے بوڑھے جوان نے بہترین لباس پہنا ہوتا ہے اور ہر ہاتھ میں ناروے کا جھنڈا ہوتا ہے۔ہر چہرے سے آزادی کی خوشی جھلک رہی ہوتی ہے۔آزادی کے تصور کی تربیت اور آزادی کا مفہوم بچوں کو سمجھانے کے لیے اس مرتبہ اوسلو میں ایک سو سولہ اسکولوں نے اپنے اپنے جھنڈے کے ساتھ جلوس نکالا۔عوام کے ساتھ جشن آزادی منانے کے لیے ناروے کی شاہی فیملی صبح ساڑھے دس بجے سے شاہی محل کی بالکونی میں کھڑی ہو جاتی ہے اور اسی جگہ پر ناروے کا قومی ترانہ سب سے پہلے سنا جاتا ہے۔ناروے کا قومی ترانہ ناروے کے معروف ڈرامہ نگار اور شاعر بیورن ستیارنے مارٹنسن jørnstjerne Martinius نے لکھا جس کے بول ہیں
Yes we love this country ,
جیسے ہی قومی ترانہ ختم ہوتا ہے سب Hurra کا نعرہ لگاتے ہیں۔اس بار بھی شاہی محل کی بالکونی میں بادشاہ ہیرالڈ ،ملکہ سونیا ،ولی عہد شہزادہ ،شہزادی میتا مارت اور بچے ہاتھ ہلاتے رہے۔بچوں کے جلوس اپنے اپنے اسکولوں کے بینڈ بجاتے ہوئے بالکونی کے سامنے سے گزرتے رہے۔جلوسوں کا یہ سلسلہ دن کو بارہ بجے تک چلا۔ اور شاہی خاندان ہاتھ ہلا ہلا کر یوم آزادی عوام کے ساتھ مناتے رہے ۔سڑکوں کی دونوں جانب بچوں کے والدین کی قطاریں لگی ہتی ہیں جو اپنے بچوں ک دیکھ کر نعرے لگاتے ہیں۔اور جشن آزای کا یہ منظر دلوں میں روح کی طرح اترتا رہتا ہے۔اس روز کوئی سرکاری تقریب نہیں ہوتی نہ حکمران پارٹی کے جلسے ہوتے ہیں۔نہ لیڈروں کی تقریریں ہوتی ہیں ۔اس روز سب کو چھٹی ہوتی ہے تاکہ تمام رہنماء اپنے آبائی سنٹروں میں یا اوسلو میں رہ کر عوام کے ساتھ گھل مل کر اجتماعی طریقے سے جشن آزادی منائیں۔اس ملک میں یوم آزادی کے موقع پرہر خاص و عام اجتماعی طور پر خوشی مناتے ہیں۔ جشن آزادی سے قبل ہر اسکول اور نرسری میں بچوں کو یوم آزادی کے متعلق بتایا جاتا ہے اور یہ کہ اسے کس طرح مل کر منانا ہے۔یہ بھی سمجھایا جاتا ہے۔درسگاہوںمیں سیکھ کر بچے یوم آزادی کے دن مل کر خوشی مناتے ہیں۔
ناروے کی وزیر اعظم ارنا سولبرگ Erna Solbergنے برگن میں عوام کے ساتھ مل کر یوم آزادی منایا۔جلوس کی قیادت کی۔ اس سال چونکہ دو سو سالہ یوم آزادی ہے اس لیے ڈنمارک اور سویڈن کے شاہی خاندانوں نے بھی خصوصی طور پر شمولیت کی۔اس سال دو سو سالہ یوم آزادی کا خاص موقع ہے۔اس روز قدرت نے موسم کو خوبصورت بنا کر ناروے کے عوام کو تحفہ دیا۔تمام دن سورج چمکتا رہا۔ٹمپریچر بیس بائیس ڈگری کے درمیان رہا۔اس ٹمپریچر کو ناروے میں آئیڈیل مانا جاتا ہے۔جشن آزادی کو قدرت کے اس موسم نے چار چاند لگا دیے۔
ناروے دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو ہر سال کالج سے فارغ ہونے والے طلباء کی خوشی کو مناتا ہے ۔ اور اس کے اظہار کے لیے حکومت وقت کی جانب سے آخری سال کے کالج کے طلباء کو خصوصی مراعات دی جاتی ہی۔
مثلاً ناروے کا ڈزنی لینڈ ان طلبا کے لیے مختص کر دیا جاتا ہے۔اس روز ڈزنی لینڈ میں تمام طلباء اکٹھے ہوتے ہیں۔پھر یہ تمام طلباء اکٹھے ہو کر ایک سنٹرمنتخب کر لیتے ہیں جہاں اکٹھے ہوکر ایک ہیرو یا ہیروئن چنتے ہیں۔اسکا معیار شکل وصورت قابلیت ،صلاحیت اور پسندیدگی پر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کالج سے فارغ ہونے والے طلباء کو یکم مئی سے لے کر سترہ مئی تک سڑکوں پر راستے میں گاڑی روک کر چلنے کی اجازت ہوتی ہے خواہ وہ زیبرا کراسنگ ہو یا نہ ہو۔مزید ان طلباء کو چوک میں بیٹھ کر کھانے کی اجازت ہوتی ہے۔اس طرح آپ یکم مئی سے سترہ مئی تک ان طلباء کو سڑکوں پر کھانا کھاتے دیکھ سکتے ہیں۔اور وہ اگر Hurra کرتے ہیں تو گاڑی والے بھی ہاتھ ہلا کر Hurra کرتے ہیں۔یوں یوم آزادی کو منانے کی عملی تربیت ملتی ہے اور ہر نوجوان کو ۔پھر وہ کس طرح تعلیمی درسگاہوں سے محب وطن بن کر نہ نکلیں۔جہاں آزادی منانے کی تربیت اور آزادی کی حقیقت سکھائی جاتی ہے۔وہاں نرسری سے لے کر حکمرانوں تک ایک دن ایک وقت میںمنایا جاتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں،ہم سب ایک ساتھ ہیں ہماری آزاد ی ہمیں پیاری ہے۔ہم ایک قوم ہیں کیونکہ ہمارا اپنا ایک ملک ہے ۔جس کا ترانہ یہ ہے
ya we love this country
ہاں ہمیں اپنے وطن سے پیار ہے۔یوم آزادی کے موقع پر ناروے کے عوام یہی پیغام ساری دنیا کو دیتے ہیں۔سترہ مئی کو یوم جشن آزادی منا کر ناروے کے عوام دنیا کو آزادی سے پیار اور اسکی قدر کرنا سکھاتے ہیں۔یوم آزادی پر ناروے دنیا کو یہ بھی سکھاتا ہے ۔آزادی کی تعلیم و تربیت درسگاہوں سے ملتی ہے۔جس کا عملی ثبوت اس ملک کے حکمران اور بادشاہ ہیں جو عوام کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔
ہاں ہمیں ناروے سے پیار ہے ، کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔
بشکریہ مسرت افتخار اوسلو ناروے
مورخہ 17 مئی 1914

اپنا تبصرہ لکھیں