ناروے کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کی نفی

ناروے کے آئین اٹھارہ سو چودہ کے مطابق ناروے میں بسنے والی اقلیتی اقوام کو تحفظ نہیں دیا گیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یہاں اقلیتوں نے زور پکڑا مگر اس

norsk constitutionوقت ناروے میں قحط کے حالات تھے۔اس وقت ناروے نے بینالقوامی انسانی ھقق کی بنیاد پر یہ نظریہ اپنایا کہ لوگوں مین اختیارات کیسے بانٹیں جائیں اور انکی درجہ بندی اختیارات کے لحاظ سے کی جائے۔یہ نظری اس کے بعد جڑ پکڑ گیا۔اس کے ساتھ مقامی قوم پرستی نے بھی اس نظریہ کو تقویت دی۔
ان نظریات کا مقصد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل تھا جہان مختلف اقوام اور مذاہب کے لوگ مل جل کر رہ سکیں۔دوسرا مقصدیہ تھا کہ سویڈش اور دوسرے ایسے مذہبی گروہوں سے تحفظ ہو جو نارویجن نظریات سے ٹکرائیں۔
سن اٹھارہ سو سے پہلے نارویجن معاشرہ اقلیتوں کا استقبال کھلے دل سے کرتا ہے۔جبکہ سن سترہ سو میں ناروے کو بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اس وقت کا بدشاہ یہودی تاجروں کو ایک معاہدے کے تحت یہاں تجارت کی اجازت دیتا ہے۔اس کے علاوہ کھیتی باری کے ماہر افراد کو بھی ناروے میں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔جبکہ سن اٹھاعہ سو کے بعد اقلیتوں کو یہاں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسکی وجہ ان گاقلیتی گروپوں کا غیر ملکی تنظیموں سے تعلق تھا۔اس طرح ایک خوف کی فضا پیدا ہو گئی۔جبکہ مقامی معاشرے میں اقلیتوں کو ضم کرنا نارویجن پالیسی بن گئی۔جبکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو کی قسم کے چیلنجز کا سامنا تھا۔جبکہ وہ تمام صنعتوں اور تجارتی مراکز پر چھائے ہوئے تھے۔اس کے بعد پہاروں پہ بسنے والے سامر اور دوسرے جنگلی قبائل کے لوگوںکو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا۔
تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ اسٹیٹ کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سامر اور دیگر اقلیتی گروپوں کو نارویجن زبان پر عبور حاصل ہو۔اور وہ معاشرے میں ترقی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں