آج مقامی بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی آخری تاریخ تھی ۔اس سلسلے میں جناب عیز الرحمان نے ممکہ نتائج کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہوئے پارٹی کی یہ پالیسی کمزور ہے کہ پرائیویٹ نرسری اسکول کھولے جائیں اس طرح سرکاری نرسری اسکولوں کے اساتذہ اور ان کی پینشن لازمی متاثر ہو گی۔نرسری اسکولوں کی پرائیویٹائزیشن کی وجہ سے سرکاری نرسری اسکولوں کے ملازمین کے حقوق پر ضرب پڑ سکتی ہے۔کیونکہ پرائیویٹ اسکول سرکاری اسکولوں جیسا معیار نہیں رکھ سکتے اس لیے کہ سرکاری نرسری اسکول خالصتاً عوام کی بہبود کے لیے کھولے جاتے ہیں جبکہ پرائیویٹ لازمی بزنس کریں گے جس سے معیار پر بھی فرق پڑ سکتا ہے۔
جبکہ آربائیدر پارٹی نے جو دولت ٹیکس کو اپنے منشور میں شامل کیا ہے اس کی وجہ سے اسکے ووٹ بہت کم ہو گئے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ کل انسٹھ نشستوں میں سے اسمبلی کی پچیس نشستیں آربائیدر پارٹی کو مل سکتی ہیں۔ جبکہ اٹھائیس سیٹیں ہوئرے فریمسکرت پارٹی اور وینسترے کو مل سکتی ہیں۔پانچ سیٹیں گرونے پارٹی کو ملنے کا امکان ہے۔کوئی بھی پارٹی واضع اکثریت سے نہیں جیت رہی۔اس لیے بڑی پارٹیوں کو مخلوط حکومت بنانی پڑے گی۔اگر گرنے پارٹی آربائیدر پارٹی کے ساتھ مل گئی تو پھر ہی وہ حکومت بنا سکے گی۔حتمی نتائج کا اعلان اگلے تین روز تک متوقع ہے۔
بیشتر پارٹیاں ملک میں تارکین وطن کے مسائل حل کرنے کا وعدہ تو کرتی ہیں لیکن گذشتہ اٹھارہ سالوں میں یہ وعدے پورے نہیں کیے گئے۔
ہر دفعہ یہی کہا جاتا ہے کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔
اس وقت ایک پاکستانی سیاستدان شعیب کے سٹی مئیر بننے کے چانسز ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ثابت ہو سکتی ہے۔