ڈاکٹر شہزاد بسراء
اُف یہ کیا کردیا
عجیب فضول آدمی ہو۔
تمہیں پتا بھی ہے کہ مجھے چھوٹے بال نہیں پسند۔
تم نے پھر اتنے چھوٹے کردیئے اور وہ بھی مجھ سے پوچھے بغیر۔147 میں شدید غصے میں تھا اور ماڈرن ہیئر سیلون کے اکرم کو ڈانٹ رہا تھا۔
اکرم ہنستے ہوئے بولا۔148مجھے پتا ہے کہ آپ کو بڑے بال پسند ہیں مگر اب فیشن نہیں رہا۔ اب بھلا کون اتنے بڑے بال رکھتا ہے۔ فیشن کے بغیر بڑے بال بُرے لگتے ہیں۔ اِسی لیے چھوٹے کردیئے ۔
اکرم کی دلیل اگرچہ وزنی تھی اور واقعی اب زیادہ بڑے بالوں کا رواج بھی نہیں رہا تھا مگر میری تو مجبوری تھی اور اُس کا فیشن کے ساتھ زیادہ تعلق ہی نہیں تھا۔ اکرم کو اندازہ بھی تھا کہ میں کسی مجبوری کی وجہ سے بال لمبے رکھتا تھا۔ ڈینس للی سٹائل۔ مگر اب تو اُس نے بالوں کا بیڑا ہی غرق کردیا تھا۔
جب ہوش سنبھالی تو چاچا انور کو اپنے گھر پایا۔ ابوجی نے چاچا جی کو پڑھانے کے لیے گاؤں سے بُلا رکھا تھا۔ چاچا جی 2-3 ناکام کوششیں کرچکے تھے مگر میٹرک نہیں ہورہا تھا۔ چاچا جی کے بال بہت کالے اور گھنے ہوا کرتے تھے اور ایک خاص سٹائل جوکہ وحید مراد سٹائل کہلاتا تھا کی مانند ماتھے پر ہوتے تھے۔ ماتھا بالوں سے ڈھکا رہتا تھا۔ گاؤں میں ایسے ہیر سٹائل کو مورنی اسٹائل کہتے تھے۔ دوسروں کی طرح میں کافی عرصہ تک یہی سمجھتا رہا کہ چاچا جی بھی وحید مراد کی کاپی کرتے ہیں مگر ایک دن ایک ظالم رشتہ دار نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ چاچاجی انور ماتھے پر بال ایک خاص مجبوری کی وجہ سے رکھتے ہیں۔ اُس نے رازدارانہ انداز سے بتایا کہ چاچا جی ایک دن کسی گدھے ساتھ بے تکلف ہوئے تو گدھے نے کافی مائینڈ کرتے ہوئے دولتی جھاڑ دی جو چاچا جی کے ماتھے پر لگی اور ہڈی ٹوٹ گئی۔ زخم تو ٹھیک ہوگیا مگر ماتھے پر ایک گہرا گڑھا پڑگیا۔ خوش قسمتی سے چاچا جی کے بال چونکہ گھنے تھے تو انہوں نے ماتھے پر وحید مراد سٹائل ڈال دیئے۔ فیشن کا فیشن اور ماتھے کے زخم کو چھپا بھی لیا۔ واہ جی واہ۔
عجیب فضول آدمی ہو۔
تمہیں پتا بھی ہے کہ مجھے چھوٹے بال نہیں پسند۔
تم نے پھر اتنے چھوٹے کردیئے اور وہ بھی مجھ سے پوچھے بغیر۔147 میں شدید غصے میں تھا اور ماڈرن ہیئر سیلون کے اکرم کو ڈانٹ رہا تھا۔
اکرم ہنستے ہوئے بولا۔148مجھے پتا ہے کہ آپ کو بڑے بال پسند ہیں مگر اب فیشن نہیں رہا۔ اب بھلا کون اتنے بڑے بال رکھتا ہے۔ فیشن کے بغیر بڑے بال بُرے لگتے ہیں۔ اِسی لیے چھوٹے کردیئے ۔
اکرم کی دلیل اگرچہ وزنی تھی اور واقعی اب زیادہ بڑے بالوں کا رواج بھی نہیں رہا تھا مگر میری تو مجبوری تھی اور اُس کا فیشن کے ساتھ زیادہ تعلق ہی نہیں تھا۔ اکرم کو اندازہ بھی تھا کہ میں کسی مجبوری کی وجہ سے بال لمبے رکھتا تھا۔ ڈینس للی سٹائل۔ مگر اب تو اُس نے بالوں کا بیڑا ہی غرق کردیا تھا۔
جب ہوش سنبھالی تو چاچا انور کو اپنے گھر پایا۔ ابوجی نے چاچا جی کو پڑھانے کے لیے گاؤں سے بُلا رکھا تھا۔ چاچا جی 2-3 ناکام کوششیں کرچکے تھے مگر میٹرک نہیں ہورہا تھا۔ چاچا جی کے بال بہت کالے اور گھنے ہوا کرتے تھے اور ایک خاص سٹائل جوکہ وحید مراد سٹائل کہلاتا تھا کی مانند ماتھے پر ہوتے تھے۔ ماتھا بالوں سے ڈھکا رہتا تھا۔ گاؤں میں ایسے ہیر سٹائل کو مورنی اسٹائل کہتے تھے۔ دوسروں کی طرح میں کافی عرصہ تک یہی سمجھتا رہا کہ چاچا جی بھی وحید مراد کی کاپی کرتے ہیں مگر ایک دن ایک ظالم رشتہ دار نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ چاچاجی انور ماتھے پر بال ایک خاص مجبوری کی وجہ سے رکھتے ہیں۔ اُس نے رازدارانہ انداز سے بتایا کہ چاچا جی ایک دن کسی گدھے ساتھ بے تکلف ہوئے تو گدھے نے کافی مائینڈ کرتے ہوئے دولتی جھاڑ دی جو چاچا جی کے ماتھے پر لگی اور ہڈی ٹوٹ گئی۔ زخم تو ٹھیک ہوگیا مگر ماتھے پر ایک گہرا گڑھا پڑگیا۔ خوش قسمتی سے چاچا جی کے بال چونکہ گھنے تھے تو انہوں نے ماتھے پر وحید مراد سٹائل ڈال دیئے۔ فیشن کا فیشن اور ماتھے کے زخم کو چھپا بھی لیا۔ واہ جی واہ۔