شہزاد بسرائ
”یار سُنا ہے 00303 کی شادی ہو رہی ہے”
”کیا G-67E سے ہی ہو رہی ہے؟”
”نہیں یار CCt23 بتا رہا تھا کہ اُس کی منگنی G-67E ٹوٹ گئی تھی اب کسی مولوی WWF کی بیٹی ڈاکٹر Z-DD-VV سے ہو رہی ہے”
یہ گاڑیوں کا تذکرہ نہیں ہو رہا بلکہ اگر انسانوں کو ناموں کی بجائے نمبروں سے پکارا جاتا تو کچھ ایسا ہی عجیب و غریب ہوتا۔
”نام میں کیا رکھا ہے”
ہم اکثر یہ فقرہ پڑھتے اور سنتے ہیں مگر نام رکھنا ضروری بھی ہے اور ذوق و شوق سے رکھا جاتا ہے۔ نام رکھنا کس قدر مشکل مرحلہ ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب ہم پہلی مرتبہ ماموں بنے۔قدرت نے بڑی باجی کو ایک چاند سا لڑکا عطا کیا تو سب اہلِ خانہ خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ امی ابو، سب بہن بھائی ہر کوئی اپنے تئیں یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ ننھا بچہ اس کو سب سے پیارا ہے۔ایک شور مچا ہوا تھا کہ کیا نام رکھا جائے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے بہترین نام تجویز کر رہا تھا۔ اتنی آراء تھیں کہ نام کا انتخاب ایک مسئلہ بن گیا۔ہمیں زندگی میں پہلی بار نام کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور اپنی کم مائیگی کا اِحساس بھی کہ کوئی ہماری سن ہی نہیں رہا۔ لہذا یہ سوچا کہ اپنی اہمیت منوائی جائے۔ اِس کے لیے ہمیںکوئی اتنا عمدہ نام تجویز کرنا چاہئے کہ سب کو پسند آ جائے۔مگر اچھا نام کیا ہونا چاہیے؟ اچھے نام کی کھوج کے لیے ہم نے کتابوں، بزرگوںاور دوست اصحاب سے استفادہ کیا تویہ نتیجہ نکلاکہ
”نام اسلامی ہونا چاہیے”
”نام کا مطلب اچھا ہونا چاہیے”
”نام بولنے اور سُننے میں اچھا لگنا چاہیے”
”اگر نام کسی برگزیدہ ہستی کے حوالے سے رکھا جائے تو ان بزرگ کی برکتیں بچے پر نازل ہو سکتی ہیں”
تحقیق کے بعد مابدولت نے اِتنا بہترین نام منتخب کر لیا جسے کو کوئی مسترد نہیں کر سکتا تھا۔ سو ہم اپنے طور پر بھانجھے کا نام رکھنے کی بازی جیت گئے۔وہ نام تھا
”حمزہ”
ہم پھولے نہیں سما رہے تھے اپنی ذہانت اور انتخاب پر۔حمزہ نام پر کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟۔ مردانہ نام کی تمام تر خوبیاں اس میں یکجا ہیں۔ مثلاً اسلامی بلکہ پیارے نبیۖکے چچا اور برگزیدہ صحابی کا نام۔اُن کی جرأت، ذہانت اور بہادری سے ہر کوئی متاثر بلکہ ایک مثال۔ نام بولنے میں مختصر اور خوبصورت ۔چنانچہ ہم نے بڑی شدومد سے حمزہ نام تجویز کر دیا۔ ساتھ بھرپور دلائل بھی دیئے کہ حضرت محمدۖ کے ناموں کے بعد اس سے خوبصورت کوئی نام نہیں اور حضرت حمزہ کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات بھی اس عقیدت بھرے انداز سے سنائے کہ گویا حمزہ نام کو قبول نہ کرنا گناہ ِکبیرہ ہوگا۔ قریباً سبھی نے نام پسند تو کیا مگرمتفق نہ ہو سکے۔ ہم کوئی دو تین دن ہر آنے والے مہمان کے سامنے نام کی اہمیت اور اس سلسلے میں اپنی تحقیقات کا نچوڑ رکھتے۔ مہمان کے تجویز کردہ ناموں کے نقائص نکالتے اور بالآخر اُنہیں ”حمزہ” نام کی تائید کرنے پر تقریباً مجبور کر دیتے۔
ہمارے لئے یہ ایک شدید صدمہ تھا جب کالج سے واپسی پر یہ خبر سُنی کہ بھانجے کا نام عمران رکھ دیا گیا ہے۔ ہم نے اس نام کے غیراسلامی ہونے اور دیگر فرضی نقائص سے اہل خانہ کو مُتنفَر کرنے کی ناکام سی کوشش تو کی مگر کوئی کامیابی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں بھی ”عمران” ہی تسلیم کرنا پڑا۔ لیکن یہ بات ایک پھانس کی طرح ہمارے دل میں چبھ گئی کہ ایک اتنا پیارا نام کیوں نہ رکھا گیا۔
خدا کے فضل سے دو سال بعد ایک بار پھر باجی کو خوشی ملی اور اللہ نے ایک اورچاندسے بیٹے سے نوازا۔ اِس مرتبہ ہم نے بروقت حمزہ نام رکھنے کے حق میں دلائل دینے شروع کر دیئے تھے۔ امید تھی کہ اہل خانہ نے جو غلطی پچھلی مرتبہ کی تھی اس کی اب کے تلافی ہو جائے گی۔ مگرنتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔اس مرتبہ قرعہ ”سلمان” پہ نکلا۔ بادل نخواستہ اسے بھی قبول کرنا پڑا۔
اس کے بعد تو ہمیں ضد سی ہو گئی ۔ ہمیں جہاں خبر ملتی کہ کسی دوست، عزیز یا رشتہ دار کو خدا نے بیٹے سے نوازا ہے تو ہم بڑے اہتمام سے مبارک دینے پہنچ جاتے اور پھر نام رکھنے کی اہمیت اور فضیلت سے آگاہ کر کے پوچھتے کہ کون کون سے نام زیرِغور ہیں۔ تجویز کردہ بیشتر ناموںکو مسترد کر کے پھر ہم بڑے عالمانہ انداز سے نام کی اِہمیت سے آگاہ کرتے۔ پوری تمہید باندھتے کہ نام کو اسلامی ہونا چاہیے، کسی برگزیدہ ہستی کے نام پر ہونا چاہیے، مطلب اچھا ہونا چاہیے۔ بولنے، سننے میں اچھا لگنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں بات حمزہ پر ختم کرتے۔عجیب اتفاق ہے دنیا میں ہزاروں حمزہ نامی لوگ ہیں مگر ایک کا بھی نام ہمارا تجویزکردہ نہیں۔
ناچار ہم نے ایک بات کا تہیہ کر لیا کہ انشاء اللہ جب ہماری شادی ہو گی اور اللہ نرینہ اولاد سے نوازے گا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں حمزہ نام رکھنے سے نہیں روک سکے گی۔ہماری شادی کے ایک سال بعد جب اولاد کی خوشی کا موقع آیا چاہتا تھا تو ہم نے گھر والوں اور خصوصاً بیگم کو حمزہ نام کے لئے تیار کر رکھا تھا مگر خدا نے بیٹی سے نوازا تو قُرعہ سُنینا پرنکلا۔ قریباً دو سال بعد بالآ خر خدا نے سن لی اور ایک چاند سا بیٹا عطا کیا۔ہم نے ہسپتال ہی میں اسے حمزہ پکارنا شروع کر دیا۔ بیگم نے بھی ہماری تائید کی۔کوئی تیسرے یا چوتھے روز کی بات ہے کہ قبلہ والد صاحب ہسپتال تشریف لائے اور فرمایا کہ بھئی بچے کے نام کو کمیٹی میں لکھوانا تھا تو آپ لوگوں نے کیا طے کیا ہے۔ ہم جھٹ سے بولے ”حمزہ”۔
والد صاحب گویا ہوئے ”اوے تینوں تے ہور کوئی سُج دا ای نئیں۔کُڑیئے توں دس (ارے تم کو توکچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔بہو تم بتائو)”۔
خطرے کی بو پاتے ہی ہم نے تنبیہ کرنے والی نظروں سے بیگم کو گھُورا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے اپنی تائید کرنے کا اِشارہ کیا مگر وہ ہماری پرواہ نہ کرتے ہوئے فوراً بولی۔
”ابو جی شاہ زیب لکھوا دیں”۔
شاہ زیب کے بعد ہم نے اپنا خانداں مکمل سمجھا مگر حمزہ نام رکھنے کی حسرت اب بھی باقی ہے۔یونیورسٹی میں اپنے طلبہ اور پڑھنے والوں سے بھی امید ہے کہ اولادِ نرینہ کا نام رکھتے وقت وہ ہمارے تجویز کردہ نام ”حمزہ” کو ضرور زیرِ غور لائیں گے۔