ناول مصحف

قسط نمبر 47 ۔

اس نے دهڑکتے دل سے ہڑهنا شروع کیا-
” بس تم مجهے یاد رکهو، میں تمہیں یاد رکهونگا، اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری مت کرنا-”
آنسو اس کے رخساروں سے پهسل کر گردن پہ لڑهک رہے تهے- وہ کہنا چاہتی تهی کہ میں نے آپ کو خوشی میں یاد رکها، آپ مجهے غم میں مت بهولیے گا، مگر لب کهل نہ پائے-
اس نے اگے پڑها-
” اے ایمان والو، تم صبر اور نماز سے مدد مانگو، بےشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے-”
ساتھ ہی حاشیے میں پین سے چهوٹا چهوٹا کچھ لکها تها- اس نے قرآن قریب کر کے پڑهنا چاہا- وہ اس کے اپنے لکهے تفسیر کے نوٹس تهے-
” مصیبت میں صبر اور نماز وہ دو کنجیاں ہیں جو آپ کو اللہ تعالی کا ساتھ دلواتی ہیں- ان کے بغیر یہ ساتھ نہیں ملے گا- اس لیے جب کوئی مصیبت آئے تب نماز میں زیادہ توجہ اور لگن ہونا چاہئے- مصیبت میں خاموشی کے ساتھ اللہ کی رضا پر راضی ہو کر جو کچھ موجود ہے اس پر شکر کرنا اور اللہ سے آگے اچهی امید رکهنا صحیح معنوں میں صبر ہے-
یہ سب اس نے لکها تها؟ وہ اپنے لکهے پہ حیرت زدہ سی رہ گئی- کلاس میں آگے بیٹهنا،ٹیچر کی ہر بات نوٹ کرنا، وہ سب اسے کتنا فائدہ دے گا، اس نے تو کبهی تصور بهی نہ کیا تها-
اس نے قدرے آگے سے پڑها-
” اور البتہ ہم تمہیں کچھ چیزوں کے ساتھ ضرور آزمائیں گے-( یعنی) خوف سے اور بهوک سے جانوں او ر مالوں کے نقصان سے….. اور خوش خبری دے دو ان کو جو، صبر کرنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے ، یہ کہتے ہیں بےشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، ان ہی لوگوں پہ ان کے رب کی طرف سے عنائیتیں اور رحمت ہے اور یہ ہی لوگ ہدايت یافتہ ہیں-”
اس نے ساتھ حاشیے میں لکهے اپنے الفاظ پڑهے-
” صابرین کا مصیبت میں بس انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ دینا کافی نہیں ہے، بلکہ درآصل یہ الفاظ ان دو عقائد کی طرف آشارہ کرتے ہیں جن پہ جمے بغیر کوئی صبر نہیں کر سکتا- اناللہ( بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں) عقیدہ توحید ہے اور وانا الیہ راجعون ( بےشک ہم اسی کی طرف لوٹاۓ جائیں گے) عقیدہ آخرت پہ ایمان ہے کہ ہر دکھ اور مصیبت ایک دن ختم ہو جائے گی اور اگر کچھ ساتھ رہے گا تو وہ صرف آپ کے صبر کا اجر-”
اس نے اگلی آیت پڑهی-
” بےشک صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں تو جو کوئی حج کا ارادہ کرے-”
صبر کے فورا بعد صفا اور مروہ اور حج کا ذکر؟ وہ ذرا حیران ہوئی اور پهر اپنے ہاتھ کے لکهے نوٹس پڑهے-
” صفا اور مروہ دراصل ایک عورت کے صبر کی نشانی ہے، جب آپ کو بےقصور کسی تپتے صحرا میں چهوڑ دیا جائے اور آپ اس توکل پہ کہ اللہ ہمیں کبهی ضائع نہیں کرے گا، صبر کریں تو پهر زم زم کے میٹهے چشمے پهوٹتے ہیں-”
اس کے بےقرار دل کو جیسے ڈهیروں ٹهنڈک اتر گئی- آنسوؤں کو قرار مل گیا تها- اندر باہر سکون سا اتر گیا- اور اس کے بعد جیسے خاموشی چها گئی-
سارے ماتم دم توڑ گئے تهے- اسے صبر آ ہی گیا تها- اب رونے کا پہر تمام ہوا تها-
کتاب اللہ اس کے پاس تهی، وہ رسول اللہ ﷺ کی امتی تهی، دین کا علم اسے عطا کیا گیا تها- اب کسی شکوے کی گنجائش باقی نہ تهی- دور جاہلیت سے نکلنے والے انسان کی زندگی میں مکہ کی سختیاں ، مدینہ کی ہجرت، بدر کی جیت اور احدکی شکست آتی ہے- طائف کے پتهر بهی آتے ہیں- اور اسری اور معراج کی بلندیاں بهی- مگر آخر میں ایک فتح مکہ ضرور آتا ہے اور اس سفر میں کسی کا مکی دور بعد میں آتا ہے اور مدنی دور پہلے آ جاتا ہے-
وہ ایک سال جو اس نے ہمایوں کے ساتھ اپنے گهر میں گزارا، ایک پرسکون من چاہی ریاست میں، وہ دور ختم ہو چکا تها- اس کا مکہ اب شروع ہوا تها- طائف کے پتهر اب لگنے لگے تهے- مگر وہ جانتی تهی کہ اگر وہ کمزوروں کا رب اس کے ساتھ ہے تو اسے بهی کسی عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ مل جائے گی- اسے بهی انگور کے خوشے مل جائیں گے- اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف کی دعا یاد آئی اور اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹها دیے-
تب ہی دروازہ کهول کر سسٹر اندر داخل ہوئی- اسے جاگتا دیکھ کر ذرا سا مسکرائی اور آگے بڑهی-
” کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟” وہ اس کے ساتھ لگی ڈرپ کو چیک کرنے لگی تهی-
” ہوں-” وہ جیسے کسی خیال سے جاگی- ” فائن-…. الحمدللہ-”
” آپ کو بہت ٹائم بعد ہوش آیا ہے- ڈاکٹرز ہوپ کهو چکے تهے-”
” معلوم نہیں-” وہ قدرے بے بسی سے مسکرائی- ” میں نے تو وقت کا تعین بهی کهو دیا تها-”
” مایوسی کی باتیں مت کریں میم، خداوند آپ کی مدد کرے گا-”
وہ ذرا سی چونکی یہ انگور کے خوشے لے کے ہمیشہ نینوا کے عداس ہی کیوں آتے ہیں- اس نے بےاختیار سوچا تها-
” ہاں، مجهے یقین ہے وہ میری مدد ضرور کرے گا-” وہ کهل کر مسکرا دی- شاید پہلی دفعہ وہ یوں مسکرائی تهی- ” تمہارا اس کی مدد پہ کتنا ایمان ہے سسٹر؟”
” بہت زیادہ، میم! کرائسٹ مدد مانگنے والوں کو خالی نہیں لوٹاتا-”
” ہوں-” وہ نرمی سے مسکراتی اس کاپریقین چیرہ دیکهے گئی- ” تم جانتی ہو عیسی علیہ السلام کے بارے میں یہ قرآن کیا کہتا ہے؟”
نلی کو تهامے سسٹر میرین کے ہاتھ لمحے بهر کو رکے-اس نے پلکیں اٹها کر اسے دیکها- اس کی سیاہ آنکهوں میں حیرت بهرا سوال ابهرا تها-
محمل نے ایک ثانیے کو اسکی آنکهوں میں دیکها، پهر آہستہ سے بولی-
” ہینڈسم، اے ویری ہینڈسم مین ہی واز مسیح، عیسی بن مریم-”
” رئیلی؟” سسٹر میرین کی آنکهوں میں دیپ سے جل اٹهے-
” آف کورس، ہماری کتاب میں لکها ہے کہ وہ بےحد ہینڈسم تهے، بہت وجیہہ، صرف بیان نہیں اس کے پاس رائٹنگ پاور بهی تهی- قلم کی طاقت، وہ بہت اچها لکهتے تهے- اور جانتی ہو وہ اپنے ان مریکلز اور ٹیلنٹس کے بارے میں کیا کہا کرتے تهے-؟”
“کیا؟” وہ دم بخود بنا پلک جهپکے سن رہی تهی-
وہ کہتے تهے ، یہ مجهے میرے رب نے سکهایا ہے-” وہ سانس لینے کو رکی، پهر جیسے یاد کر کے بتانے لگی- ” جب سے مجهے یہ پتا چلا میں اپنی کوئی بهی تعریف سن کر عیسی علیہ السلام کو کوٹ کرتی تهی,کوئی میری تعریف کرتا تو میں کہتی یہ مجهے میرے رب نے سکهایا ہے-”
” بیوٹی فل-” سسٹر میرین بےخود کہہ اٹهی- پهر آہستہ سے چیزیں سمیٹنے لگی-
” مسز ہمایوں آپ پہلی مسلم ہیں جس نے بتایا ہے کہ آپ کی ہولی بک یسوع مسیح کے بارے میں کیا کہتی ہے- ورنہ مسلم ہمیشہ بہت سختی سے کہتے ہیں کہ تمہارا عقیدہ غلط ہے-”
” السلام علیکم-” فرشتے نے جهانکا، تم اٹھ گئیں-”
“ہاں، کب کی-” وہ چونکی، پهر سنبهل گئی- فرشتے اندر چلی آئی- عبایے اور سیاہ حجاب کو چہرے کے گرد لپیٹے ہمہشہ کی طرح تازہ اور خوبصورت-
” آپ نے شادی نہیں کی فرشتے؟” محمل نے کہا اور پهر اس نے دیکها کہ فرشتے کی سنہری آنکهوں میں سایہ سا لہرایا ہے-
” شادی میں کیا رکها ہے محمل؟” وہ پهیکا سا مسکرائی-
” سنت سمجھ کے کر لیں-”
وہ سر جهکائے چادر پہ نادیدہ لکیریں کهینچنے لگی-
” پهر آپ شادی کر لیں گی نا؟”
” جب تک تم ٹهیک نہیں ہوتیں میں شادی نہیں کرونگی-”
” اور اگر میں کبهی ٹهیک نہ ہوئی تو؟”
” تو میرے لیے تم، ہمایوں اور تیمور بہت ہو-” مجهے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے، چلو تمہاری فزیو تهراپسٹ آنے والی ہو گی- اس سے بنا کر رکهو، اب اسکو بهگانا نہیں ہے- گهر شفٹ ہو کر بهی روز اس کی شکل دیکهنی تو ہوگی نا-” فرشتے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑهی-
اور وہ ایک خیال اسے اطمینان بخش گیا-
گهر….. اسکا گهر…. اپنا گهر…. اس ہفتے وہ واپس چلی جائے گی-
اس نے طمانیت سے سوچا تها-
سسٹر میرین فائل ہاتھ میں پکڑے پین سے اس میں کچھ اندراج کر رہی تهیں-
محمل تکیوں کے سہارے ٹیک لگائے خاموش گم صم سی بیٹهی تهی- اس کے بهورے سیدهے لمبے بال شانوں پہ پهسلتے کمر پہ گر رہے تهے- یہ بال کبهی بےحد گهنے اور سلکی ہوتے تهے- مگر طویل بیماری نے انہیں بےحد پتلا اور مرجهائے پهول کی پتیوں جیسا کر دیا تها-
” میڈم-” لکهتے لکهتے ایک دم سسٹر نے سر اٹهایا- اس کے چہرے پہ یکایک ڈهیروں تفکر امڈ آیا تها-
” ہوں-” وہ چونکی- آجکل وہ پکارے جانے پہ یوں ہی چونک اٹهتی تهی-
” کافی دن ہو گئے، وہ نہیں آئے-”
“کون؟”
” وہ کوئی صاحب ہیں، کافی عرصے سے آپ کو دیکهنے آ رہے ہیں- کافی بڑی عمر کے ہیں، اتنی لمبی داڑهی بهی ہے- بہت کائنڈ اور جینٹل سے ہیں-”
” کب سے آ رہے ہیں؟،”
” میں تین سال سے ادهر ہوں، جب سے انہیں دیکهتی ہوں عموما” فرائی ڈے کو آتے ہیں، بس ادهر سے جهانک کر-” اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور مجھ سے آپکا حال پوچھ کر چلے جاتے ہیں- کبهی آپ کے پاس رکے نہیں-”
” کیا میرے کوئی رشتے دار ہیں؟” سوال کرنے کے ساتھ ہی اس کے ذہن کے پردے پہ بہت سے چہرے ابهرے- آغاہاؤس کے خوشحال و مطمئن چہرے، ایک کسک سی دل میں اٹهی- کیا وہ ان کو یاد ہو گی؟ کیا کبهی اپنے عیش و آرام سے فرصت پا کر انہوں نے اس کے لیے چند لمحے نکالے ہونگے؟
” نہیں، وہ کہتے تهے کہ وہ آپ کے رشتے دار نہیں ہیں- بس یونہی جاننے والے ہیں-
” فرشتے اور میرے ہزبینڈ…. ان کو جانتے تهے وہ؟”
” ان کے ہوتے ہوئے تو کبهی نہیں آئے وہ، ہمیشہ ان کی غیر موجودگی میں آتے ہیں- مگر اب کافی دن ہو گئے نہیں آئے-”
” کوئی نام، اتاپتا؟”
” کبهی بتایا نہیں-” سسٹر اب دوبارہ فائل پہ جهکی اندراج کرنے لگی- وہ مایوس سی ہو گئی- جانے کون تها، کیوں آتا تها-
رات میں فرشتے آئی تو اس نے یونہی پوچھ لیا-
” مجهے ادهر دیکهنے کون کون آتا ہے فرشتے؟”
” ہم سب-” وہ اس کے بهورے بالوں میں برش کر رہی تهی-
” آغاجان لوگ کبهی نہیں آئے؟”
” پتا نہیں-” وہ دونوں ہاتهوں میں اس کے بال پکڑ کر اونچے کیے اور پونی باندهی- پهر سیدهی لمبی پونی ٹیل کو احتیاط سے اوپر سے نیچے برش کرنے لگی-
” کوئی تو آیا ہو گا؟”
” میں ان لوگوں کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی محمل- پلیز مجهے دکھ مت دو-” اس کے انداز میں منت بهرا احتجاج تها- پهر محمل کچھ بهی نہ پوچھ سکی- سر جهکائے بال بنواتی رہی-
” یہ دیکهو-” فرشتے نے پاکٹ مرر اس کے چہرے کے سامنے کیا- اس نے جهکا سر اٹهایا- آئينے میں اپنا عکس دکهائی دیا تو لمحے بهر کو وہ پہچان ہی نہ پائی-
بےحد کمزور چہرہ، اندر کو دهنسے ہوئے گال، زردی مائل پهیکی رنگت، آنکهوں کے گرد گہرے جامنی حلقے’ پژمردہ ، بیمار، روکها پهیکا سا چہرہ، اوپر اونچی پونی ٹیل ، جو کبهی اس تروتازہ سی محمل ابراہیم پہ بہت اچهی لگتی تهی، اس بیمار، لاغر محمل پہ بہت بری لگ رہی تهی-
” رہنے دیں، مجهے یہ بال نہیں بنانے-” اس نے ہاتھ سے پونی پکڑ کر کهینچی- بال شکنجے سے نکل کر شانوں پہ بکهر گئے اور پونی اس کے ہاتھ میں آ گئی-
” کیوں کهول دیے؟” فرشتے کو تاسف ہوا-
” میں ایسے بال نہیں بنانا چاہتی- پلیز مجهے دکھ مت دیں-” نہ چاہتے ہوئے بهی وہ اس کے الفاظ لوٹا گئی- فرشتے چپ سی ہوگئی اور پهر کمرے سے نکل گئی- شاید وہ جانتی تهی کہ اس وقت محمل کو تنہا چهوڑ دینا ہی بہتر ہو گا-
جاری ہے…….!شاعری ، اقتباسات ،اچھی اور اصلاحی باتيں ،دل کو چھو لينے والی تحريريں، ميرے، آپ کے دل کی باتيں . ھميں جوائن کیجيے۔
اپنا تبصرہ لکھیں