ناول مصحف

ناول نگار عمیر احمد
انتخاب راحیلہ ساج
قسط نمبر 49 ۔شام بہت سہانی سی اتری تهی- کالونی کی صاف سڑک کے اطراف سبز درختوں کے تازہ پتوں کی مہک ٹهنڈی ہوا سے ہر سو بکهر گئی تهی-
بلقیس اس کی وہیل چئیر دهکیلتی سڑک کے کنارے آگے بڑھ رہی تهی- وہ ساتھ ساتھ ادهر ادهر کی چهوٹی موٹی باتیں بهی کر رہی تهی- مگر محمل کا دهیان کہیں اور تها- وہ گم صم سی دور افق کو دیکھ رہی تهی- جہاں پرندوں کے غول اڑ رہے تهے- اس روز کے طوفان کے بعد موسم بہت ٹهنڈا ہو گیا تها– اور اس ٹهنڈی ہوا میں باہر نکلنا بیت اچها لگ رہا تها-
بلقیس اسکی وہیل چئیر دهکیلتی دور پارک تک لے آئی تهی- اس سے آگے ان کے سیکٹر کا مرکز تها- وہاں بوتیک’ شاپس اور ریسٹورنٹ کی چہل پہل ہوتی تهی اور ایسی جگہوں پہ جاتے ہوئے اس کا دل گهبراتا تها سو اس نے بلقیس کو آگے جانے سے منع کر دیا-
” بس یہیں پارک تک ٹهیک ہے، اسی میں چلتے ہیں-”
بلقیس سر ہلا کر وہیل چئیر اندر لے جانے لگی-
” جب آپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تها نا محمل بی بی تو صاحب بہت روئے تهے- میں نے خود انہیں روتے دیکها تها- بہت دهچکا لگا تها ان کو-”
” کون؟ ہمایوں ؟” وہ چونکی تهی-
” ہاں جی! انہوں نے چهٹی لے لی تهی، کئی ماہ تو وہ اسپتال میں آپ کے پاس ہی رہے تهے- تیمور بابا کو تو بهلا ہی دیا تها، میں نے بڑا کیا ہے جی تیمور بابا کو- بڑا پیارا بچہ تها ہمارا بابا، جب چار سال کا تها تو آپ کے لیے پهول لے کر جاتا تها، اور وہاں اسپتال میں آپ کے سرہانے بیٹھ کر گهنٹوں بولا کرتا تها-”
” پهر اب کیا ہوا اسے بلقیس؟” اس نے دکھ سے ہوچها تها- بلقیس آہستہ آہستہ پارک کی پتهریلی روش پہ وہیل چئیر چلا رہی تهی- دور گهاس میں بچے کهیل رہے تهے- ایک طرف ایک بچہ ماں کی انگلی پکڑے رو رہا تها- اسے یر بچے میں اپنا تیمور نظر آتا تها-
تیمور بابا ایسا نہیں تها بی بی- وہ تو بہت پیار کرنے والا بچہ تها- مگر اب پچهلے دو، ایک سالوں میں وہ بہت چڑ چڑا ہو گیا ہے- صاحب بھی تو اسے توجہ نہیں دیتے، پہلے تو چهوٹا تها، پر اب بہت سمجهدار ہو گیا ہے، ساری باتیں سمجهتا ہے، اسی لیے سب سے ناراض رہتا ہے-
” اور تمہارے صاحب وہ ایسا کيوں کرتے ہیں-؟”
” ہتا نہیں بی بی!” وہ شروع میں آپکا بہت خیال رکهتے تهے- پهر آپ کے حادثے کے چوتهے برس ان کی کراچی پوسٹنگ ہو گئ تهی- وہ سوا سال ادهر رہے- وہاں سے واپس آئے تو بہت بدل گئے تهے جی- اب تو ڈیڑھ سال ہو گیا ہے ان کو واپس آئے ہوئے جی- مگر اب تو وہ آپکا یا تیمور بابا کا حال بهی نہیں پوچهتے-”
” کراچی میں ایسا کیا ہوا جو وہ بدل گئے؟” وہ کهوئی کهوئی سی بولی تهی-
” معلوم نہیں بی بی ، مگر…..” وہ لمحے بهر کو ہچکچائی- ” ان کے کراچی جانے سے کوئی دو ہفتے پہلے مجهے یاد ہے، ادهر آپ کے گهر آپ کے کوئی رشتے دار آئے تهے، ان سے بہت…… بیت لڑائی ہوئی تهی صاحب کی-”
” کون؟ کون آیا تها؟” اس نے وحشت زدہ سی ہو کر گردن گهمائی- بلقیس کے چہرے پہ تذبذب کے آثار تهے-
” اصل میں بی بی! آپ کے رشتے دار کبهی آئے نہیں، تو وہ جو بس ایک ہی دفعہ آئے تو مجهے یاد رہ گیا، آپ کے تایا کے بیٹے تهے-”
” کوں؟ فو….فواد؟” اس کا دل زور سے دهڑکا تها-
” نام وام تو نہیں معلوم، مگر صاحب نے ان سے بہت جهگڑا کیا تها- دونوں بہت دیر تک اونچا اونچا لڑتے رہے-
” مگر کیا ہوا تها؟ جهگڑا کیوں ہوا ان کا؟’ وہ مضطرب اور بےچین سی ہو گئی-
” میں کچن میں تهی بی بی! کچھ سمجھ تو نہیں آئی کہ وہ کیوں جهگڑ رہے تهے، مگر شاید کوئی کچہری وغیرہ کا معاملہ تها اور دونوں آپکا نام بار بار لے رہے تهے- پهر صاحب نے فرشتے بی بی کو بهی ادهر بلوا لیا – وہ پتا نہیں کچھ بولیں یا نہیں، انکی آواز ہی نہیں آئی مجهے- پهر وہ آپ کے تایازاد چلے گئے اور صاحب دیر تک فرشتے بی بی پہ چیختے رہے، میں کهانے کا پوچهنے گئی تو دیکها فرشتے بی بی رو رہی تهیں اور اپنا سامان پیک کر رہی تهیں- میرے پوچهنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ جا رہی ہیں، میں نے پوچها کہ کدهر تو بولیں کہ پتا نہیں، اور روتی جا رہی تهیں- پهر اگلے دن رشید نے بتایا کہ صاحب اپنا ٹرانسفر کراچی کروا رہے ہیں- پهر صاحب چلے گئے اور فرشتے بی بی رک گئیں-”
وہ دم سادهے ساری تفصیلات سن رہی تهی- اس کے پیچهے کیا کیا ہوتا رہا اسے خبر بهی نہ ہو سکی- کیا فواد نے ہمایوں کو اس کے خلاف بهڑکایا تها؟ اور فرشتے کو اس نے ایسی کیا بات کہی کہ وہ روئی؟ وہ تو بہت مضبوط لڑکی تهی- یوں کبهی نہیں روتی تهی- اس نے تو اس کی آنکهوں میں کبهی آنسو نہیں دیکهے تهے- اوہ خدایا، اس نے سر دونوں ہاتهوں میں گرا لیا-
وہ کیا کرے؟ کس سے پوچهے؟ فرشتے تو کبهی نہ بتاتی، ہمایوں سے اسے امید نہیں تهی اور تیمور تو اسے دیکهنے کا روادار نہیں تها- پهر؟ کیا کرے؟ صبر اور نماز کا سہارا- اس کے دل سے آواز اٹهی تهی-
بلقیس کو کوئی جاننے والی مل گئی تهی تو وہ اس سے باتیں بگهارنے ذرا فاصلے پہ جا کهڑی ہوئی تهی-
محمل نے قرآن اٹها لیا وہ قرآن لیے بغیر گهر سے نہین نکلتی تهی اور آہستہ سے کهولا- کل جدهر سے تلاوت چهوڑی تهی ان آیات پہ نشان لگا تها- وہ بہت غور سے ، دهیان سے آگے پڑهنے لگی-
” اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم ان چیزوں کے بارے مین سوال نہ کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں” (مائدہ 10)
لمحے بهر کو اس کا دماغ چکرا گیا- پهر فورا خود کو سرزنش کی-
” یہ کوئی فال نکالنے کی کتاب تو نہیں ہے، اسی لیے اس نے مجهے ایسے سوال کرنے سے منع کیا ہے، میں بهی خوامخواہ….” وہ سر جهٹک کر آہستہ سے آگے تلاوت کرنے لگی-
اگلی آیات دوسری چیزوں سے متعلق تهیں- اس کی سوچوں پہ بالکل خاموش، کسی اور طرف توجہ مبزول کرواتیں….. اس کے الجهے دماغ کو سکون آنے لگا- جو بهی ہوا، کبهی نہ کبهی کهل ہی جائے گا، اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہ تهی- وہ زیرلب ترنم سے تلاوت کرنے لگی-

رات کے دو بج چکے تهے اور ہمایوں ابهی تک گهر نہیں آیا تها- وہ مضطرب سی لاؤنج میں بیٹهی تهی- بار بار دیوار پہ آویزاں گهڑی کو دیکهتی اور پهر دروازے کو- گهڑی کی سوئیاں آگے بڑهتی جا رہی تهیں- مگر دروازہ ہنوز ساکت و جامد تها- باہر بهی خاموشی تهی-
اس کے دل میں وسوسے سے آنے لگے- نہ جانے وہ ٹهیک بهی ہے یا نہیں، کیا پتا اس کی گاڑی خراب ہو گئی ہو، کیا پتا کسی مشکل میں پهنس گیا ہو- اس نے بےاختیار اس کے لیے دعا کی تهی-
دفعتا” گاڑی کا ہارن سنائی دیا- اور پهر گیٹ کهلنے کی آواز، وہ مڑ کر دروازے کو پیاسی نظروں سے دیکهنے لگی-
قدموں کی آواز اور پهر…… بهاری چر چراہٹ کے ساتھ دروازہ کهلا، کیپ اور اسٹک ہاتھ میں لیے وہ تهکا تهکا سا یونیفارم میں چلا آ رہا تها- اندر داخل ہو کر اس نے مڑ کر دروازہ بند کیا اور پهر چند قدم آگے آیا- دفعتا” اسے بیٹها دیکھ کر ہمایوں کے قدم تهمے- چہرے پہ حیرت بهری ناگواری امڈ آئی-
” تم ادهر کیوں بیٹهی ہو؟”
” السلام علیکم، آپ کا ویٹ کر رہی تهی- آپ نے بہت دیر لگا دی-” وہ آہستہ سے بولی تهی-
” میں دیر سے آؤں یا جلدی آؤں، خدا کے لیے میرے انتظار میں ادهر مت بیٹها کرو-”
اس نے بہت تحمل سے اس کا بیزار لہجہ سنا، پهر دهیرے سے بولی-” میں پریشان ہو گئی تهی کہ خیریت—-”
” مر نہیں گیا تها میں، سو کام ہوتے ہیں، اگر آئندہ تم مجهے ادهر بیٹهی ملیں تو میں گهر ہی نہیں آیا کروں گا- خدا کے لیے میرا پیچها چهوڑ دو محمل-” وہ جهڑک کر کہتا تیزی سے اوپر سیڑهیاں چڑهتا چلا گیا-
اس نے بڑے صبرو ضبط سے آنسو پی لیے- یہاں تک کہ وہ اپنے دروازے کے پیچهے گم ہو گیا- تب اس نے گود میں دهرے ہاتھ اٹهائے اور اپنی وہیل چئیر کوکمرے کی طرف موڑنے لگی-
کبهی تو اسے احساس ہو گا کہ یہ وہی محمل ہے جو کبهی اس کی من چاہی بیوی تهی اور جب وہ یہ محسوس کرے گا تو پلٹ آئے گا- اسے یقین تها اور یہ یقین ہی اس نے دل میں اٹهتے درد کو دلا کر دبا لیا تها-
وہ تارکول کی سڑک پہ آج پهر بلقیس کے ساتھ اپنی وہیل چئیر پہ جا رہی تهی- باہر کا موسم اس کی طبیعت پہ بہت اچها اثر ڈالتا تها- یہ الگ بات تهی کہ اس کی معذوری میں رتی برابر بهی فرق نہیں آیا تها-
بلقیس ادهر ادهر کی باتیں کرتی اس کہ وہیل چئیر دهکیل رہی تهی- وہ آج بهی اسے نہیں سن رہی تهی- بس خاموش، مگر پرسکون نگاہوں سے دور افق کو دیکھ رہی تهی- آہستہ آہستہ یہ ٹهہراؤ اس کی شخصیت کا حصہ بنتا جا رہا تها- ” بلقیس…. تمہیں میرے تایا کے گهر کا پتا ہے؟” ایک دم ہی کسی خیال کے تحت وہ چونکی اور پهر پوچھ لیا-
” نہ بی بی! میں تو ادهر کبهی نہیں گئی-”
” اچها….. مگر مجهے راستہ یاد ہے، تم مجهے ادهر لے چلو گی؟”
” پیدل؟” وہ حیران ہوئی-
” ہاں زیادہ دور نہیں ہے، جتنا فاصلہ یہاں سے مرکز تک کا ہے اتنا ہی ہے، میں پیدل آیا جایا کرتی تهی-”
اسے بےاختیار وہ شام یاد آئی جب وسیم سے اپنے رشتے کا سن کر وہ روتی ہوئی پیدل ہی مسجد کے سامنے سڑک پہ آ گئی تهی، اور اس نے ہمایوں سے کہا تها کہ وہ بیچ راہ میں چهوڑ دینے والوں میں سے ہے اور پهر……..
” چلیں، پهر ٹهیک ہے، آپ راستہ بتائیں-” بلقیس کی آواز پہ ہو یادوں کے ہجوم سے نکلی اور راستہ بتانے لگی-
چهوٹی سڑک سے ایک راستہ پل سے ہوتا ہوا ان کے سیکٹر میں جا اترتا تها جس سے وہ بیس منٹ میں ادهر پہنچ سکتی تهیں-
آج وہ بیس منٹ پوری ایک صدی لگ رہے تهے- وہ اس راستے پہ جاتے ہی دور کہیں کهو گئی تهی- نہ جانے وہ سب کیسے ہونگے؟ اتنے ہی عیش و آرام سے رہ رہے ہونگے جتنے پہلے تهے؟ کیا ان میں سے کسی نے اس کو یاد بهی کیا ہو گا؟ کبهی وہ ہسپتال بهی آئے ہونگے یا نہيں ؟ اور نہ جانے فواد نے جا کر ہمایوں سے کیا کہا تها جس پہ فرشتے روتی رہی؟ بہت یاد کرنے پہ بهی ایسی کوئی بات ذہن میں نہیں آئی جو وہ ہمایوں سے یوں کہہ سکتا تها- یا شاید اس کی سوچنے کی صلاحیت اب سست ہوتی جا رہی تهی-
” یہ آپ کا گهر ہے جی؟ بڑا سوہنا ہے-”
بلقیس کہہ رہی تهی اور وہ چونک کر اس اونچے عالیشان محمل نما گهر کو دیکهنے لگی اسکا پینٹ، کهڑکیوں کے شیشے اور بیرونی گیٹ بدل گیا تها- وہ پہلے سے بهی زیادہ خوبصورت ہو گیا تها-”
یہ وہ گهر تها جہاں اس نے اپنی زندگی کے اکیس سال گزارے تهے اور پهر اسی سے وہ ایک رات نکالی گئی تهی- بظاہر رخصتی کی آڑ میں اسے اس گهر سے بےدخل کر دیا گیا تها-
” بیل بجاؤ بلقس-”
بلقیس آگے بڑهی اور گهنٹی بجائی- چند ہی لمحوں بعد قدموں کی چاپ سنائی دی- جیسے کوئی دوڑتا ہوا گیٹ کهولنے آ رہا ہو- اس کے دل کی دهڑکن ٹهہر سی گئی- وہ اتنے سالوں بعد کسے دیکهنے جا رہی تهی؟ فواد؟ حسن؟ آغاجان؟ دروازہ آہستہ سےکهلا اور کسی نے سر باہر نکال کر دیکها-
” جی کس سے ملنا ہے؟” وہ حلیے اور لہجے سے ملازم لگتا تها-
بلقیس نے جوابا” محمل کو دیکها تو وہ ہمت مجتمع کر کے بولی-
” آغاکریم گهر پہ ہیں؟”
ملازم کے چہرے پہ ذرا سی الجهن ابهری-
” کون آغاکریم؟”
” آغا….. آغاکریم جو اس گهر کے مالک ہیں، جن کا یہ گهر ہے، اور…. اور یہ ہاؤس نمبر ٹو تهرٹی ہے نا؟”
” آہو جی، یہ ٹو تهرٹی ہے، مگر یہ تو چوہدری نذیر صاحب کی کوٹهی ہے- ادهر تو کوئی آغاکریم نہیں رہتے-”
” بی بی کہیں ہم غلط گهر میں تو نہیں آ گئے- ” بلقیس نے ہولے سے کیا تو اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا-
” نہیں، یہ ہی گهر ہے، آغا کریم سات سال پہلے ادهر ہی رہتے تهے-”
” سات سال پہلے تو بڑا لمبا عرصہ ہوتا ہے میڈم جی، خدا جانے وہ اب کدهر گئے ہوں- اچها آپ ٹهہرو، میں بیگم صاحبہ سے پوچھ کر آتا ہوں-” وہ انہیں وہیں چهوڑ کر اندر چلا گیا- چند لمحوں بعد اس کی واپسی ایک نوجوان کے ہمراہ ہوئی-
” جی فرمايے-” وہ بیس اکیس برس کا مہذب اور شایستہ جوان تها-
” وہ… ادهر آغا کریم اور ان کی فیملی رہتی تهی- وہ لوگ کدهر گئے-؟”
” میم! ہم دو سال سے ادهر رہ رہے ہیں- دو سال پہلے ہم نے ایک شیخ عامر صاحب سے یہ گهر خریدا تها- ہو سکتا ہے ان کو آغاکریم نے یہ بیچا ہو- مگر میں ان کے بارے میں قطعی لاعلم ہوں-”
” آغاجان نے یہ گهر بیچ دیا؟ مگر کیوں؟ وہ شاکڈ سی رہ گئی-
” معلوم نہیں میم! کیا میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا یوں؟”
اس کا سر نفی میں دائیں سے بائیں ہلا- لڑکا معذرت کر کے واپس چلا گیا- اور وہ پریشان سی بیٹهی رہ گئی-
” بی بی! ہمسائیوں سے پوچهتے ہیں-” اور اس کے منع کرنے سے قبل ہی بلقیس ساتھ والے گهر کی گهنٹی بجا چکی تهی- اس گهر میں کون رہتا تها؟ خاصا جانا پہچانا سا گهر تها مگر یاد نہیں آرہا تها-
بمشکل ایک منٹ بعد ہی گیٹ کهل گیا- محمل نے گردن اٹها کر دیکها-
ادهر کهلے گیٹ کے اس پار بریگیڈئیر فرقان کهڑے تهے-
” السلام علیکم لٹل گرل، میں کافی دیر سے آپ کو ٹیرس سے دیکھ رہا تها- آئیے اندر آجائیں- ” انہوں نے گیٹ پورا کهول دیا اور ایک طرف کو ہٹ گئے-
بلقیس اس کی وہیل چئیر دهکیلتی اندر روش پہ لے آئی- ” ادهر آ جايے-” وہ لان میں رکهی گهاس پہ رکهی لان چئیرز کو جوڑنے لگے، یوں کہ وہیل چئیر کی جگہ بن جائے-
” کیسی ہیں آپ؟” وہ اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹهے اور بہت شائستگی سے پوچهنے لگے- ان کا مخصوص لب و لہجہ اسی طرح بهاری تها، البتہ سختی کی جگہ نرمی نے لے لی تهی-
” ٹهیک ہوں، الحمدللہ-” وہ ذرا سا مسکرائی اور سر جهکا لیا- پهر کچھ سوچ سوچ کر اسی طرح سر جهکائے کہنے لگی کہ میرا کچھ سال پہلے ایکسیڈنٹ ہو گیا تها، تو….
” میں جانتا ہوں، میں آپ کو دیکهنے ہسپتال آتا رہتا تها-”
اس نے ہولے سے سر اٹهایا- سنہری آنکهوں میں حیرت اتر آئی تهی-
” اچها؟” اور پهر اسے یاد آ گیا- ” ہاں مجهے نرس نے بتایا تها، تو وہ آپ تهے-”
” جی ہاں -” وہ دهیمے سے مسکرائے- ” آپ کی امانت نے میری زندگی بدل دی بیٹا-”
وہ بنا پلک جهپکے انہیں دیکھ رہی تهی-

جاری ہے……

شاعری ، اقتباسات ،اچھی اور اصلاحی باتيں ،دل کو چھو لينے والی تحريريں، ميرے، آپ کے دل کی باتيں . ھميں جوائن کیجيے۔

Dil Ki Baat /دل کی بات

  • Shazia Andleeb
    Skriv en kommentar …

اپنا تبصرہ لکھیں