ناول مصحف فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ ادب اگست 8, 2015August 8, 2015 0 تبصرے 82 مناظر تحریر عمیر احمد انتخاب راحیلہ ساجد اب ناول تيزی سے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اسی ہفتے ميں آپ اس کی آخری اقساط پڑھ سکيں گے۔ ان شاء اللہ قسط نمبر 50 ۔” میں نے دو سال وہ پمفلٹس نہیں کهولے- پهر زندگی میں ایک موڑ ایسا آیاکہ ہر جگہ اندهیرا دکهنے لگا تو نہ چاہتے ہوئے بهی میں نے ان کو کهول لیا- میرا خیال تها، ان میں کسی تنظیم کا لٹریچر ہو گا، ہا کسی سیاسی پارٹی کا کوئی منشور، مگر ان میں تو صرف قرآن کی آیات تهیں اور انکا سادہ ترجمہ- میں پڑهتا گیا اور پهر….. پهر سب بدل گیا، مختصر الفاظ مین انہوں نے بات سمیٹ دی – وہ چپ چاپ انہین دیکهے گئی- ” آپ کچھ عرصہ پہلے گهر شفٹ ہو گئی تهیں، مجهے پتا چلا تها- اب طبیعت کیسی ہے؟” ” ایم فائن-” پهر لمحے بهر کے تؤقف کے بعد بولی- ” آغاجان وغیرہ کدهر گئے؟ انہوں نے گهر کیوں بیچ دیا؟” ” جن دنوں وہ گئے تهے میں ملک سے باہر تها، بس ملازم سے ہی تهوڑا بہت سنا تها کہ شاید تینوں بهائیوں نے جائیداد کا بٹوارہ کیا ہے اور گهر بیچ کر رقم تقسیم کر کے الگ الگ جگہوں پی شفٹ ہو گئے ہیں- آپ کے ایکسیڈنٹ کا بهی میرے ملازم ہی نے بتایا تها-” ” کب کی بات ہے یہ؟ کب بیچا انہوں نے گهر؟” ” آپ کے ایکسیڈنٹ کے تقریبا” ڈیڑھ سال بعد-” “اوہ!” اس کے لب سکڑےاور پهر اس نے گہری سانس لی- ” کوئی اندازہ ہے آپ کو کہ کہاں گئے وہ؟ اب میں ان سے کدهر ملوں؟” ” اونہوں، قطعی نہین-” انہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں سر ہلایا- ” ہمآرے کبهی اتنے تعلقات تهے ہی نہیں، ہاں آغا اسد کے بارے میں ، میں نے ایک دوست سے سنا تها- ” کیا، کیا سنا تها؟” ” یہ ہی کہ ان کو کینسر ہو گیا تها، اور پهر ان کی ڈیتھ ہو گئی- آپ کو نہیں پتا چلا؟” وہ سانس روکے ہکا بکا سی بیٹهی رہ گئی- ” آئی ایم ویری سوری محمل-” انہیں افسوس ہوا- ” کب؟ کب ہوا یہ؟” چند لمحے بعد اس کے لب پهڑپهڑائے- آنکهیں پتهرا سی گئیں- ” غالبا” پانچ سال قبل، ان کے گهر بیچنے کےچھ، سات ماہ بعد-” ” اور….. اور ان کے بچے؟ معاذ اور معیز تو بہت چهوٹے تهے-” ” معلوم نہیں- یتیم بچے تو پهر مجبورا” رشتے داروں کے تسلط میں ہی رہتے ہیں- اللہ ان پہ رحم کرے-” اور لفظ “یتیم بچے” محمل کے دل مین کهب گیا- بہت پہلے پڑهی گئی ایک آیت ذہن میں گونجی- ” ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئیے کہ اگر وہ اپنے پیچهے کمزور یتیم اولاد چهوڑ جاتے-“( نساء9) “ یتیم بچے؟ اسد چچا کے بچے یتیم کو گئے؟ آرزو، معاذ ‘معیز-” وہ ابهی تک بےیقین تهی- اور پهر کب وہ بریگیڈئیر فرقان کو خدا حافظ کہہ کر بلقیس کے ہمراہ باہر آئی، اسے کچھ پتا نہ چلا- دل دماغ بس ایک ہی نقطے پہ منجمد ہو گئے تهے- اسد چچا کے بچے یتیم ہو گئے- بےاختیار اسے لاؤنج کا وہ منظر یاد آیا- صوفے پہ گری محمل اور اسے تهپڑوں اور جوتوں سے مارتے اسد چچا اور غفران چچا- غفران چچا… نہ جانے وہ کہاں گئے؟ اور آغاجان…… سب کدهر چلے گئے؟ وہ ان لوگوں کو کدهر ڈهونڈے؟ مگر وہ ان کو کیوں ڈهونڈنا چاہتی تهی؟ اس نے خود سے پوچها، کیا وہ یہ دیکهنا چاہتی تهی کہ ان کو ان کے کیے کی سزا ملی یا نہیں کہ آخر یہ قانون فطرت ہے- یا وہ ان خون کے رشتوں کی محبت میں ان کو یاد کر رہی تهی؟ شاید خون کی محبت غالب آگئی تهی یا شاید اپنے سب قریبی رشتوں شوہر اور بیٹے کے ٹهکرائے جانے کے بعد اسے کسی رشتے کی ضرورت تهی، ہاں شاید یہی بات تهی- سارے گھر میں فجر اتری تهی- جب وہ وہیل چئیر کو خود گهسیٹتی کهینچتی لان میں آئی- شبنم کے قطرے گهاس پہ بکهرے تهے- دور کہین پرندوں کی حمد کی آواز سنائی دے رہی تهی- مختلف بولیاں، مگر ایک ہی بات انسانوں کو سمجھ نہ آئے، وہ اور بات ہے- تب ہی وہ اہستہ آہستہ وہیل چئیر چلاتی دیوار کے ساتھ آگے بڑهنے لگی- دیوار کے اس پار مسجد کی عمارت تهی- صبح کے وقت مسجد کے لان میں بچوں کی ناظرہ کلاس ہوتی تهی- وہاں بچے بلند آواز مین قرآن پڑها کرتے تهے- ان کی تجوید کی ہلکی ہلکی آواز ان کے لان میں بهی سنائی دیتی تهی- وہ آواز آج بهی آ رہی تهی- وہ وہیں، دیوار کے ساتھ وہیل چئیر کو روک کر، کان لگا کر سننے لگی- وہ سب مل کر بلند آواز سے پڑھ رہے تهے- ترجمہ: ” اور داخل ہو جاؤ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور کہو حطتہ- ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے-” آج اس نے بہت عرصے بعد وہ آیت سنی تهی- بےاختیار وہ گود مین رکهے قرآن کے صفحے پلٹنے لگی- وہ بنی اسرائیل کے ہیکل میں داخل ہونے کا قصہ تها- سورت البقرہ کی 58 آیت، جب انہوں نے حطتہ کے بجائے حنطتہ کہا تها- محمل کو کبهی یہ قصہ سمجھ نہیں آیا تها- اب بهی وہ الجھ سی گئی اور وہ صفحہ نکالا- اس میں اس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لکهے تهے- شاید پرانے رجسٹر میں ہوں جو الگ سے تهے- اس نے اپنی وہیل چئیر کا رخ موڑا اور اندر کی طرف لے گئی- اسٹڈی میں ایک جگہ اس نے اپنے پرانے نوٹس رکهے تهے- وہ ان ہی کو ڈهونڈنے اسٹڈی میں آئی- دروازہ ادھ کهلا تها- وہ اندر آگئی- ہمایوں اس کی طرف پشت کیے ریک میں سے کوئی کتاب نکال رہا تها- آہٹ پہ پلٹا- ایک نظر اسے دیکها اور پهر واپس کام میں لگ گیا- اجنبیت، سردمہری، بےحسی، مگر زیادہ دل جلائے بغیر وہ کمرے کے مطلوبہ حصے کی طرف بڑھ گئی- اس کے نوٹس وہیں رکهے تهے- گرد کی ایک تہہ ان پہ جمی تهی- جیسے ان گزرے سالوں میں بس واجبی سی صفائی کی جاتی رہی ہو- ظاہر ہے فرشتے کیا کیا دیکهے؟ اسے کسی دن اسٹڈی کی صفائی کروانی چاہئے- وہ سوچتی ہوئی مطلوبہ رجسٹر ڈهونڈنے لگی- بغیر کسی دقت کے وہ رجسٹر اسے سامنے ہی مل گیا- اس پہ ہلکی ہلکی سی گرد کی تہہ جمی تهی- محمل نے وہ ترچها کر کے چہرے کے سامنے کیا اور پهونک ماری، گرد اڑ کر دور بکهر گئی- ” میں تمہیں چهوڑنا چاہتا ہوں-” ہمایوں بغیر کسی تمہید کے کهڑے کهڑے کتاب کے صفحے الٹ پلٹ کرتے بولا تها- لمحے بهر کو محمل لگا کہ وہ دهول مٹی اڑ کر ہر طرف چهانے لگی ہے- اس نے بمشکل رخ موڑ کر اسے دیکها- وہ بےنیازی سے کتاب کے ورق پلٹ رہا تها- ” میرا مطلب مکمل علیحدگی سے ہے- میں اب یہ رشتہ مزید نہیں نبهانا چاہتا- سو مجهے اپنے پیروں کی زنجیر کهولنے دو- سنی ہم دونوں کا بیٹا ہےاور سات سال کا ہو چکا ہے- اس کی کسٹڈی اسے خود ڈیسائیڈ کرنے دینا-” ” اگر سنی تمہارے ساتھ رہنا چاہے تو میں اسے مجبور نہیں کرونگا کہ وہ میرے ساتھ رہے اور اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو تم اسے مجبور مت کرنا- جو بهی فیصلہ کرو- مجهے بتا دینا، لیکن میں فیصلہ کر چکا ہوں-” اس نے کتاب ریک میں واپس رکهی اور بنا دیکهے لمبے لمبے ڈگ بهرتا باہر نکل گیا- وہ شدید صدمے کے زیر اثر پتهر بنی وہیں بیٹهی رہ گئی- کیا ہمایوں اس طرح اسے اپنی زندگی سے دور کر سکتا ہے؟ ” اگر کرتا ہے تو کرنے دو، میں مر نہیں جاؤنگی اس کے بغیر-” ایک دم اس نے سر جهٹکا- آنکھ آنسو بہاتی ہے دل غمگین ہے- مگر……. ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو- بےاختیار ہی وہ مدهم سی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تهی- اس کے دل کو جیسے قرار آ گیا تها- اس نے رجسٹر کهولا نوٹس میں اس واقعے کے متعلق بس اتنا لکها ہوا تها کہ ہیکل میں داخلے سے قبل جب بنی اسرائیل کو کہا گیا کہ سواریوں پہ جهکتے ہوئے عاجزی سے حطتہ یعنی” بخشش” کہتے ہوئے داخل ہو، تو وہ تمسخر اڑاتے ہوئے زبانیں مروڑ کر حنطتہ(Hinta, tun) کہتے ہوئے دروازے سے داخل ہوئے- آگے لکها تها- “حنطتہ کا مطلب ہوتا ہے گن-” اس سے آگے صفحہ ختم تها- اس نے ذہن سے تمام سوچوں کو جهٹک کر ان الفاظ پہ غور کیا اور پهر نئے سرے سے الجھ گئی- وہ واقعہ اسے بہت عجیب سا لگ رہا تها……. بنی اسرائیل جتنی جینئیس اور عقل ممد قوم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے گن کس چیز کو کہا؟ جب ان کو سیدهے طریقے سے بتایا گیا تها کہ وہ بخشش مانگیں تو انہوں نے ” گن گن ” کیوں کہا؟ ایک طرف وہ اتنے ذہیں تهے کہ حطتہ سے ملتا جلتا لفظ ڈهونڈ لائے، اور دوسری طرف اس لفظ کو کہنے کا مطلب ہی نہیں بنتا تها- آخر کیوں انہوں نے صحیح لفظ نہ بولا؟ حنطتہ کیوں کہا؟ وہ سمجھ نہ پائی اور قرآن بند کر کے رکھ دیا- دل اتنا خالی ہو رہا تها کہ تفسیر کهول کر پڑهنے کو بهی نہیں چایا- کانوں میں ابهی تک ہمایوں کے الفاظ گونج رہے تهے- ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا اور رخسار پہ پهسلتا گیا- ” تو جس حال میں بهی رکهے، میرے مالک، میں تجھ سے راضی-” اور نہایت بےدردی سے اس نے ہتهیلی کی پشت سے آنسو رگڑ ڈالا تها- تیمور توس کے چهوٹے چهوٹے لقمے لے رہا تها- ڈائننگ ٹیبل پہ اس کے علاوہ اور کوئی نہ تهاوہ اپنی وہیل چئیر گهسیٹتی ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی تو وہ آہٹ پہ چونکا- لقمہ توڑتے چهوٹے چهوٹے ہاتھ رکے اور سر اٹهایا- محمل کو آتے دیکھ کر اس کے ماتهے پہ بل پڑ گیا- اس نے توس کا بچا ٹکڑاا زورسے پلیٹ میں واپس پهینکا اور کرسی پیچهے کو دهکیلی- ” بیٹهو تیمور! مجهے تم سے بات کرنی ہے-” ” آئی ڈونٹ وانٹ ٹو ٹاک ٹو یو-” ( میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا) وہ کرسی دهکیل کر اٹھ کهڑا ہوا تها- ” مگر مجهے کرنی ہے، اور یہ تمہارے ڈیڈ کا میسج ہے، میرا نہیں-” ” واٹ؟” وہ لمحے بهر کو رکا، ماتهے پہ بل اور بهنویں تنی ہوئیں- ” شاید میں اس گهر سے چلی جاؤں، شاید اب ہم ساتھ نہ رہیں، میں اور تمہارے ڈیڈی-” ” آئی ڈونٹ کئیر-” ” تمیور! تم کس کے ساتھ رہنا چاہو گے؟ میرے یا ڈیڈی کے ساتھ؟” وہ جانتی تهی کہ تیمور کا جواب کم از کم اس کے حق میں نہیں ہو گا، پهر بهی پوچھ لیا- ” کسی کے بهی ساتھ نییں-” اس نے بے زاری سے شانے اچکائے تهے- ” مگر بیٹا! آپ کو کسی کے ساتھ تو رہنا ہی ہو گا-” ” میں آپ کا نوکر ہوں جو کسی کے ساتھ رہوں؟ جسٹ لیو می الون-” وہ ایک دم زور سے چیخا تها اور پهر کرسی کو ٹهوکر مارتا ہوا اندر چلا گیا تها- وہ تاسف سے اسے دور جاتے دیکهتی رہی- یہ تلخ لہجہ، یہ بدمزاجی، یہ اندر بهرا زہر….. یہ کس نے تیمور کے اندر ڈالا- اور اس سے پہلے کی وہ اس کے باپ کو موردالزام ٹهہراتی، ایک منظر اس کی نگاہوں کے سامنے بننے لگا- جینز کرتے مین ملبوس، اونچی پونی ٹیل والی ایک لڑکی چہرے پہ ڈهیروں بے زاری سجائے چلا رہی تهی- ” میں آپکے باپ کی نوکر ہوں جو یہ کروں-” اس کے مخاطب بہت سے چہرے تهے، کبهی تائی مہتاب، کبهی مسرت، کبهی کزنز تو کبهی کوئی چچا- اسے وہ منہ پهٹ اور بدمزاج اور تلخ لڑکی یاد آئی تو اس کا رواں رواں کانپ اٹها- ” ہاں….. جو اپنے بڑوں سے جیسا کرتا ہے اس کے چهوٹے بهی اس کے ساتھ ویسا ہی کرتے ہیں-” کوئی اس کے اندر بولا تها- راستہ ایک ہی ہے، اس پہ انسان ایک وقت چلتا ہے، اور پهر آخر وہ واپس اپنے قدموں کے نشانوں پہ لوٹتا ہے جو ببول اگا کر جاتے ہیں، ان کو لہولہان کرنے والے کانٹے ہی ملتے ہیں اور جنہوں نے پهول بکهیرے ہوں ان کا انتظار گلستان کر رہے ہوتے ہیں- ” محمل!” کسی نے پکارا تو وہ خیالوں سے جاگی اور پهر سختی سے اپنی آنکهیں رگڑیں- ” کیا میں نے ٹهیک سنا؟” فرشتے جیسے بےیقین سی اس کے سامنے آئی- ” کیا؟” اس نے خود کو سنبهالتے ہوئے سر اٹهایا- ” محمل! تم اور ہمایوں…. تم الگ ہو رہے ہو؟” وہ متحیر سی کہتی اس کے سامنے زمین پہ گهٹنوں کے بل بیٹهی اور دونوں ہاتھ اس کے گود میں دهرے ہاتهوں پہ رکهے- ” ہاں….. شاید-” ” مگر…. مگر تم نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟” وہ مضطرب سی اس کی انکهوں میں دیکهتی جواب تلاش کر رہی تهی- ” میں نے نہین کیا….. ہمایوں نے کیا ہے-” ” کیا اس نے خود تمہیں ایسا کہا ہے؟” “ہاں-” ” تو…… تم.نے مان لیا؟” وہ بے یقین تهی- ” میرے پاس چوائس بچی ہے کیا؟” فرشتے ٹکر ٹکر اسکا چہرہ دیکھ رہی تهی- ” فرشتے! میرے اختیار میں نہ کل کچھ تها ، نہ آج ہے- ہمایوں نے فیصلہ سنانا تها، سنا دیا- اگر وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو کیا میں اسے مجبور کروں؟ نہیں-” اس نے سختی سے نفی مین سر ہلایا- ” اگر وہ علیحدگی ہی چاہتا ہے تو ٹهیک ہے- میں مصالحت کی آخری کوشش ضرور کرونگی، مگر اس سے بهیک نہیں مانگوں گی-” ” پهر…. پهر کیا کرو گی؟ کدهر جاؤ گی؟” ” فرشتے! میں ہمایوں کی محتاج نہیں ہوں- اللہ کی دنیا بہت بڑی یے- میں اپنے بیٹے کو لے کر کہیں بهی چلی جاؤنگی-” ” تم اس کے بغیر رہ لو گی؟” ” کیا وہ میرے بغیر نہیں رہ رہا؟” وہ پهیکا سا مسکرائی- ” مگر کیا تم خوش رہو گی؟” “اگر اللہ نے میرے مقدر میں خوشیاں لکهی ہیں تو وہ مجهے مل ہی جائیں گی، بهلے ہمایوں میرے ساتھ ہو یا نہ ہو-” فرشتے تاسف سے اسے دیکهتی رہی- آئی ایم ویری سوری محمل! اگر تم کہو تو میں اس سے فیصلہ بدلنے کو…..” ” نہین-” اس نے تیزی سے اس کی بات کاٹی- جاری ہے…… Post Views: 125