نجمہ محمود کی کتاب جنگل کی آواز کا پیش لفظ گذشتہ سے پیوستہ

ساتھ ہی اس کے بعد کی تخلیقات پر مشتمل دوسرا مجموعہ بھی لانا چاہتی تھی۔ لیکن کتاب کی اشاعت( وہ بھی بوجوہ خود اپنے آپ ، اپنے ہی تشکیل کردہ’’وِیژن پبلکیشنز‘‘ کے ذریعہ) بہت بڑا دردِ سرہے۔ اس سے بھی بڑد ردِ سر کسی پبلِشر کے ذریعہ شائع کرانا ہے۔ دو عدد کتابوں کی بہ یک وقت اشاعت ایک مصیبت معلوم ہوئی ۔ مخلصین نے میری الجھن دیکھ کر مشورہ دیا کہ پہلے مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن کے بجائے دوسرا مجموعہ شائع کیجیے اور اسی میں پہلے مجموعہ کے بیشتر افسانے شامل کردیجیے یوں دو کے بجائے فقط ایک مصیبت رہ جائے گی۔ مشورہ خاصا قابل قبول اور دل خوش کُن لگا لیکن صحافت کے بندھے ٹکے اصول وضوابط کی خلافت ورزی بھی معلوم ہوا پھر یہ سو چ کر کہ اس طرح کی خلاف ورزی کرنے کی جرأ ت تو میں اپنے چند نادر’’ تجربوں‘‘ کے ذریعہ اس سے قبل ہی کر چکی ہوں۔ یعنی اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت بچانے کے لیے ’’ماہنامہ بزم سہارا‘‘ کے فقط چھ صفحات پر مشتمل ناول( جنگل کی آواز) اور کئی ’’ طرحی‘‘ افسانے( جب کہ اب تک فقط طرحی غزل لکھنے کی اجازت تھی)۔ تو پھر ایک مزید تجربے میں کیا ہرج ہے۔ جیسے پچھلے تجربوں کو قبول خاص وعام ملا ویسے ہی یہ انشاء اللہ قبول کیا جائے گا۔ اس لیے کہ یہ بات عموماً سب جانتے ہیں کہ ایک معقول مصنّف کے لیے ایک ہی کتاب شائع کرانا، اور ایک معقول قاری کے لیے فقط ایک ہی کتاب پڑھنا( آج کے مصروف دور میں) کس قدر مشکل کام ہے نہ کہ بہ یک وقت دو دو کتابیں شائع کرانا اور دو دو کتابیں خریدنا اور پڑھنا۔ مجھے امید ہے کہ قارئین میری اس درجہ انسانی ہمدردی کی قدر کریں گے( اپنے جذبۂ ہمدردی کے تحت ہی میں نے جتنا لکھا ہے اس سے کافی کم شائع کرایا ہے)
عظیم فن پارہ وہ نہیں جو براہ راست سب کچھ کہہ دے فقط پروپیگنڈا اور رپورٹنگ ہو۔ ساتھ ہی عظیم فن پارہ وہ بھی نہیں جسے پڑھ کر قاری مخمصہ اور خلجان میں پڑجائے بار بار پڑھنے پر بھی اس سے استفادہ نہ کرسکے محظوظ نہ ہو سکے۔ لازم ہے کہ کوئی فن پارہ پہلی بار میں ہی متاثر کرے، کچھ کہے اور بار بار پڑھنے پر بہت کچھ کہے، قاری پرا یک جہان معنی منکشف ہوں وہ فن پارہ ہم کو خود سے اوپر اٹھادے ۔ محظوظ و سرشار کرے اور زندگی بھی سنواردے۔ اور بار بار کوئی فن پارہ تب ہی پڑھا جاتا ہے جب اس میں آفاقی موضوع ، زرخیز تخیل کی فراوانی، فطرت کے پُراسرار و فسوں خیز حسن
وغیرہ کا فقط نام لیتے ہیں اس کے بعد وہاب اشرفی اور علی احمد فاطمی کا سرسری ذکر کرتے ہیں پھر ذرا طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں۔
146146دوسرے ادب دوستوں نے بھی فن افسانہ نگاری پر جو مضامین لکھے ہیں ان میں بھی دوست نوازی کے جراثیم زیادہ ہیں145145
اس کے بعد کچھ نیم مزاحیہ انداز میں فکشن پر خیال آرائی کا 146146عمومی فارمولا145145 بتاتے ہیں کچھ اس طرح کہ آپ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے۔
146146فکشن محو ترقی ہے۔ تنقید نگار، اصل میں فہرست نگار کافیصلہ ۔نہایت خوش آیند حالات ہیں۔ ہمارافکشن بھی مغرب کے شانہ بہ شانہ محو ترقی ہے دو چار صف اول کے افسانہ نگار پھر نئے اور معروف افسانہ نگاروں کی دس گیارہ پرمبنی فہرست ۔ بعض بعض افسانہ نگار مفید ناقدین کی خدمت بھی کرتے ہیں۔۔۔ ناقدین اکثر اپنے ناپسندیدہ افسانہ نگاروں کو نظر انداز کرتے ہیں۔۔۔ ان سب میں بہت کچھ ہونے کے باوجود یہ نہیں ہے کہ افسانے اور فکشن کی اہمیت کیا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ شاعری پیغامبری کا جزو ہے تو افسانہ کہاں اور کس مرتبہ پر فائز نظرآتا ہے۔۔۔یہ نکتہ کہ ہم فکشن کو کس طرح سماج سدھار کے لیے استعمال کری اب تک واضح نہ ہو سکا۔۔۔ ڈرائڈن نے کہانی کوشخصیت سازی کا ذریعہ کہا تھا۔ تعلیم، اخلاق ، سبق آموزی افسانہ کااصل مقصد ہے۔ قدیم داستانوں اور ناولوں میں146146تہذیب نفس پر زور ہے، خیرو شر کے تضاد کی پیشکش ہے145145۔
قیصر تمکین کے نزدیک فن افسانہ کو پایۂ امتیاز صرف ترقی پسند تحریک نے عطا کیا146146اس دور کے فکشن کاروں نے فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف مورچہ لگایا۔ سامراجی سازشوں کا پردہ چاک کیا۔ اس تحریک کا بنیادی عنصر تھا زندگی بر دوش افسانہ جس نے معاشرتی سقائم کی تنقیص کی، مظلوموں کی آزادی کی حمایت کی145145۔ وہ جدید افسانہ نگاروں سے جواب طلب کرتے ہیں کہ 146146 ان کے مساعی سے عصررواں کے فکری نراج کے حل کی طرف کیا اشارے ملتے ہیں۔ سماجی ناانصافیوں اور سامراج کے احیاء کے مظاہروں پر وہ خاموش کیوں ہیں۔ اقلیتوں کی نسل کشی پر قلم کیوں نہیں اٹھاتے145145۔ ان کاخیال ہے کہ مشاہدے کی کمی اور فنّی اخلاص کے فقدان نے افسانہ نگاروں کو ادب برائے ادب کا نمائندہ بنا کر چھوڑ دیا ہے
یہ سب لکھنے کے بعد قیصر تمکین فکر مند ہو کر لکھتے ہیں۔
’’آج کا فکشن بنیادی مسائل اور حقائق سے گریزاں رہے گا تو پھر افسانے کو کہانی کا عنصر اور اس کے لیے قاری کہا ں سے اور کیوں آئے گا۔ یہ شکایت غیر منصفانہ ہی ہو گی کہ کہانی کا قاری گم ہو گیا ہے بلکہ کہانی سے انسان ہی گم کردیا گیا ہے۔ اس صورت میں جب کہ انسان کے دکھ درد وجہ تردّد نہ رہ جائیں تو اچھا فکشن کہاں سے آئے گا۔ آج کے افسانے میں انسان کہاں ہے۔ آج فنکاری کی طرف کتنے اہل قلم محنت کرتے نظرآرہے ہیں۔ وہ جذبہ کہاں دکھائی دے رہا ہے جوپسماندہ ممالک کی معاشی و تہذیبی آزادی کی تحریکوں کا ساتھ دے سکے۔ اگر شاعری پیغمبری ہے تو فکشن دنیائے ادب کی خدائی ہے‘‘۔
یہ مضمون پڑھ کر مجھے یہ مصرعہ یا دآیا کہ ’’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ حیرت ہے کہ یہ سب ان سے پہلے( یا بعد میں) اب تک کسی نے کیوں نہ کہا، اکثر سننے میں آیا کہ کسی تخلیق میں مقصد کی بات نہ کی جائے تو کہنا یہ ہے کہ مقصد کا برعکس لفظ تو بے مقصد ہوا۔ یعنی فضول!۔۔۔ دھیرے دھیرے یہ احساس ہو اکہ مقصدیت کی مخالفت بس یوں ہی نہیں ہے ۔ اردو ادب کے برباد شدہ منظر نامہ پر جو بھی ہلچل اورتگ ودو ہے وہ بچوں کی طرح انعامات لینے والوں کی ہے جو یکے بعد دیگرے اسٹیج پر لائے جاتے ہیں ( یا زبردستی آتے ہیں) انعام لیتے ہیں اور پھر انعام دینے والے سے ایک خاموش وعدہ کر کے واپس ہو جاتے ہیں۔ زبان پر مہر لگانے کا وعدہ۔ قیصر صاحب مرحوم کے اس گراں قدر مضمون سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ اردو میں قابل ذکر فکشن تنقید لکھی ہی نہیں گئی افسانے کے مرتبے پر روشنی ڈالی ہی نہیں گئی اسی لیے وہ افسانے لکھے ہی نہیں گئے جن میں خدائی ہوتی، الوہیت اورDivinityہوتی او رجو چند ایک ایسے افسانے لکھے بھی گئے ان کو بے رحمی سے نظر انداز کیا گیا۔ معتبر اور دیانت دار مقصدی فکشن ناقدوں کو بھی( جن کی تعداد بہت کم ہے) پس پشت ڈال دیا گیا !۔
احمد زین الدین(مدیر ’’روشنائی‘‘ کرا چی) اپنی کتاب’’حرف پزیرائی‘‘ میں شامل مضمون’’ احمد سہیل کی ذہنی قلابازیاں‘‘ میں بجا طور پر لکھتے ہیں۔۔۔
’’ ہمارے یہاں آج تک بڑے ادب یا شاہکار فن پارے کا تعین نہیں ہوسکا
 continue‘‘
اپنا تبصرہ لکھیں