آدمی سے آدمی کا جب گلہ ہو جاےُ گا
نفرتیں بڑھ جاںُیں گی اور فاصلہ ہو جاےُ گا
آذر و نمرود ہیں گر مثلِ تارِ عنکبوت
دستِ ابراہیم صد لختِ حرا ہو جاےُ گا
میں نے تو بس آںُینہ رکھا تھا اس کے سامنے
مجھ کو کیا معلوم تھا ظالم خفا ہو جاےُ گا
اک ذرا کل یگ کو اپنا رخ بدلنے دیجئے
لمحہ لمحہ زندگی کا حادثہ ہو جاےُ گا
دیکھنا اک دن تمہاری آنکھ سے منظر کے بیچ
کچھ نظر نہ آنے والا سلسلہ ہو جاےُ گا
بدعاںُیں دینے والےکو دعاںُیں دیجئے
بدعاؤں سے وہ اپنی خود فنا ہو جاےُ گا
چھیڑ کر میری خودی کو ,امتحاں لیتا ہے وہ
جیسے وہ کمظرف میرے ظرف کا ہو جاےُ گا