نمک حرام
علیم خان فلکی
خبر ہی ایسی تھی؛ جس نے بھی سنی نرسمہا راو کی انسانیت کا قائل ہوگیا۔ خبر یہ تھی کہ بھری محفل میں نرسمہا راو جی نے اپنی بیوی سریکھا راو کو ایک بوڑھے مسلمان ملازم شرف الدین سے بدسلوکی کرنے پر تھپڑ رسید کردیا اور اس سے معافی معانگنے کا حکم دیا تھا۔ سریکھا راو کا غصہ اور آمرانہ مزاج بھی ویسے ہی مشہور تھا جیسے نرسمہاراو کا حلم و بردباری۔ سریکھا راو یہ اہانت برداشت نہیں کرسکی اور سب کے سامنے شوہر سے کہہ دیا کہ ” اگران نمک حراموں کو خوش کرکے آپ کی سیاست چمک سکتی ہے تو چمکایئے مجھے آپ کی نہ لیڈ ری کی ضرورت ہے نہ آپ کے گھر کی ” یہ کہتے ہوئے وہ پاوں پٹختی اوپر چلی گئی۔نرسمہاراو نہ صرف ایک کامیاب سیاستدان تھے بلکہ پارٹی ہائی کے ہائی کمانڈ سمجھے جاتے تھے۔ کروڑوں کی جائداد کے مالک تھے۔ جتنا انہیں ان کے والد دیوندر راو سے ملا تھا اسے کاروبار میں لگا کر اسکا کئی گنا اضافہ کرچکے تھے۔ لیکن مزاجا اسقدر سادہ تھے کہ نوکروں کو بھی اتنی ہی عزت دیتے جیسے وہ بھی کوئی سرکاری افسر ہوں۔ بالخصوص شرف الدین کو وہ بہت عزیز رکھتے تھے۔ شرف الدین انہی کی عمر کا تھا۔ بچپن بھی دونوں کا ساتھہ ہی گزرا تھا۔ دیوندر راو نے اسے بیٹے ہی کی طرح پالا اور گھر کی نگرانی کے کام پر لگادیا تھا۔ نرسمہا راو یہی سمجھے کہ سریکھا ہمیشہ کی طرح ناراضگی دکھائے گی اور بعد میں غصہ ٹھنڈا ہونے پر نارمل ہوجائیگی۔ ایسا اس سے پہلے بھی کئی بار ہوچکا تھا۔ لیکن آج سریکھا نے اپنی توہین کا بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی۔ اس نے بار بار کی اس بے عزتی کے سلسلے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرکے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ نرسمہاراو نیچے مہمانوں کے ساتھہ مصروف رہے اورسریکھا راونے اوپر جاکر کپڑے اور زیورات ایک بیگ میں بھرلئے۔ سوچا کہ کوٹھی کے کاغذآت بھی اپنے ساتھہ لے جائے ۔ یہ کوٹھی نرسمہاراو نے شادی کے وقت ہی اپنی بیوی کے نام کردی تھی۔ اس نے جب تجوری کھول کر فائلیں نکالیں وہاں اور بھی دوسری کئی جائدادوں کے کاغذات تھے۔جو کسی عزالدین سے دیوندر راو نے خریدے تھے۔ تمام فائلوں کے نیچے ایک لفافہ بھی تھا۔ اسے تجسس ہوا اور اس نے لفافہ کھولا۔ اندر کافی بوسیدہ حالت میں اردو میں لکھا ہوا ایک خط برآمد ہوا۔ اس نیایک مسلمان نوکر کو اوپر آنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ یہ خط پڑھہ کر سناو۔ خط یوں تھا کہ عزیزم دیوندربعد از تسلیمات، اللہ سے امید ہیکہ تم بخیر و عافیت ہوگے۔ یہاں جیل میں جو کچھہ سلوک ہمارے ساتھہ کیا جارہا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ جن لوگوں کے ساتھہ ہمیشہ ایک بھائی کیطرح سلوک کیا آج وہی اسقدر احسان فراموشی پر اتر آئیں گے کہ جھوٹے الزامات لگا کر ہمیں ہی اپنے ملک سے نکالنے کی سازشیں کرنے لگیں گے۔ کل ہی کافی مسلمانوں کو رضاکار فوجی ہونے کے الزام میں عدالت لے جانے کے بہانے یہاں سے لے جایا گیا اور سنا کہ کسی ویران جگہ پر انہیں آزاد کرکے بھاگ جانے کا حکم دیا۔ جیسے ہی انہوں نے بھاگنا شروع کیا پیچھے سے ان پر گولیاں داغ دیں۔ ہوسکتا ہے میرے ساتھہ بھی ایسا ہی کچھہ ہو۔ مجھہ پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ عزیزم دیوندر، تم اور تمہارے والد ہمارے سب سے زیادہ وفادار ملازم رہے۔ تم کو بھی ابا جان نے اپنا بیٹا ہی سمجھا اور جو مجھے پڑھایا وہی تمہیں بھی پڑھایا۔ جو مجھے کھلایا یا پہنایا وہی تمہیں بھی دیا۔ مجھے پورا پورا یقین ہیکہ اس آزمائشی وقت میں ایک تم ہی ہو جو اپنی وفاداری کا اپنی جان پر کھیل کر شرفو کی حفاظت کروگے۔ یہی التماس ہیکہ شرفو بہت کم سن ہے۔ ماں کو تو کھو چکا ہے اب شائد باپ کو بھی کھو دے۔ باقی سارے رشتہ دار یا تو کسی نہ کسی جیل میں ہیں یا پاکستان منتقل ہوچکے ہیں۔ اللہ کے بعد اب شرفو کے سر پر ہاتھہ رکھنے والا اگر کوئی ہے تو وہ تہمی ہو۔ تم نے ہمیشہ انتہائی ایمانداری سے اپنی ذمہ داریاں نبھا کر اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ میں اگر زندہ نہ لوٹا تو تم شرفو کے بڑا ہونے اوراسکے پاوں پر کھڑا ہونے تک جائداد کی حفاظت کرنا۔ اور تمام دوکانوں اور گودام کو فروخت کرکے اس پیسے کو شرفو کے بڑا ہونے تک کسی بنک یا پوسٹ آفس میں محفوظ کردینا۔ تم ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ نمک کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ میں اسی نمک کا تمہیں واسطہ دیتا ہوں جسکے تم قائل تھے کہ میرے لخت جگر شرفو کو اپنے بیٹے نرسمہا ہی کی طرح پالنا اور اسے اعلی تعلیم دلوانا۔ اللہ تمہیں سدا خوش رکھے اور میری اولاد کی حفاظت کا تمہیں اجر عطا فرمائے۔ آمین۔ فقطتمہارامجبور بھائی
نواب عزالدین بتاریخ 22 / اکتوبر 1948 ۔
سریکھا راو کو سب سمجھہ میں آگیا کہ شرفو کے ساتھہ انسانیت اور شرافت برتنے کے پیچھے کیا راز ہے۔ اسکا سارا غرور کافور ہوچکا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ کسی کروڑوں کی جائداد اور کاروبار کے مالک کی بیوی نہیں بلکہ ایک نمک حرام گھٹیا ملازم کے بیٹے کی بیوی ہے۔ لیکن خاموشی سے معاملہ کو دبا دینے میں ہی اسکی اور نرسہماراو کی عزت تھی