موجودہ دور میں ایم بی اے کی مختلف شاخیں وجود میں آ چکی ہیں. لیکن اس حقیقت کو مد نظر رکھیں کہ آنے والے دور میں ایم بی اے کی اسناد بھی بی اے ڈگری سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہوگی. اس لئے جو نوجوان ابھی اپنے ہدف کو سمجھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں انھیں “پوسٹ گریجویشن” کے ساتھ ساتھ مناسب قلیل مدتی کورسیس پر دھیان دینا چاہیے. دوسری اہم بات یہ ہے کہ نوکری کرتے ہوئے بھی
مختلف طریقوں سے اعلی تعلیم اور قلیل مدتی کورسیس کرنے کا عمل جاری رکھا جا سکتا ہے اور یہ طریقہ کار آزمودہ اور بے حد کار آمد ہوتا ہے. اسناد کے ساتھ تجربہ کی اہمیت بہت ہے اور اس سے خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں. اس میں بھی محنت زیادہ کرنی ہوتی ہے لیکن نتایج دور رس ہوتے ہیں.
نوجوانوں میں یہ بات نقص کے بجائے اوصاف میں شمار ہونے لگی ہے کہ آپ بے شمار کمپنیوں کا سابقہ تجربہ رکھتے ہو اور آپکی تبدیلی ملازمت کا اوسط زیادہ ہے. لیکن انھیں اس غلط فہمی کے دائرے سے باہر آنا چاہیے کہ عالمی سطح کے تجارتی مراکز میں اعلی عہدوں کی امیدواری میں شامل ہونے کے لئے کم از کم پانچ سالہ سابقہ ملازمت کا کامیاب ریکارڈ درکار ہوتا ہے. اس لئے کسی بھی ابتدائی ملازمت کو کم از کم پانچ سال کے عرصہ تک خوش اسلوبی سے انجام دے کر اور خاطر خواہ تجربہ حاصل کر کے کہیں اعلی عہدے کے لئے درخواست دینا بہتر ہے. عجلت میں حاصل کی ہوئی ترقی بہت کم پائدار ہوتی ہے. ترقی اور کامیابی حاصل کرتے ہوئیاکثر کو دیکھا گیا ہے لیکن بہت کم اس مقام پر جمے رہ پاتے ہیں اور آگے بڑھ پاتے ہیں.
اب رہی بات ان داستانوں کی جب “فرسٹ کلاس پوسٹ گریجویٹس اور ایم بی اے” نامور عالمی تجارتی مراکز میں کروڑوں کی ملازمت پاتے تھے اور جسکا اشتہار میڈیا جا بجا کیا کرتا تھا وہ سب پانی کے بلبلے ثابت ہویے ہیں. راقم کے حالیہ تجربہ کی ایک مثال ملاحظہ کریں کہ صرف پانچ مڈل مینیجمنٹ عہدوں کے لئے تقریبا پانچ سو سے زائد درخواست موصول ہوئی تھیں. جن میں پچپن فیصد خواتین پوسٹ گریجویٹس اور ان میں بھی اکثر فرسٹ کلاس اور دو چار گولڈ میڈلسٹ بھی تھیں. تعجب تو تب ہوا جب چند خواتین بی ٹیک کیساتھ ایم بی اے کی اسناد لئے ہوئیتھیں. مرد حضرات میں بھی تقریبا تمام پوسٹ گریجویٹس. اج اکثر امیدوار چھوٹے شہروں سے تھے. چند ایسے بھی تھے جو کچھ نہ کچھ عملی تجربہ بھی رکھتے تھے اور ساتھ ہی ایک سے زائد قلیل مدتی کورسیس کی اسنادبھی. انٹرویو کے نتائج کا لب لباب یہ تھا کہ چھانٹ کر جن پانچ امیدواروں کا نام دیا گیا تو پتہ چلا تین خواتین اور صرف دو حضرات کسوٹی پر پورے اترے. اکثر کمپنیاں اس مشق سے دور رہنے اور وقت کی بچت کرنے کی خاطر بھاری فیس کے عوض یہ کام ٹھیکیدار کمپنیوں کو دے دیاکرتی ہیں. ایچ آر ایم ایس اور “ملازمت کی تلاش ختم” کے نام سے ملازمتیں ملنا آسان تو ہوگئی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ پیچیدگیاں اور بھی بڑھ گئی ہیں.
اپنے پیشہ ورانہ مقاصد کے حصول کے لئے ایک ہدف، مختلف طریقہ کار و آلہ کار اور سنگ میل کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مقاصد کے حصول میں آنے والی مشکلوں پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے سے بہتر ہے کے ہدف کو حاصل کرنے کے طریقہ کار و آلہ کار کا مطالعہ اور مشق جاری رکھیں یا کو ئی بھی عارضی ہدف اپنایا جائے جو اصل ہدف کے قریب تر ہو. اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کے آپ کسی تیز رفتار سواری کے انتظار میں کھڑے ہیں اور اس مخصوص سواری کو آنے میں کافی تاخیر ہو رہی ہے. جو سواریاں آ رہی ہیں وہ مسافروں سے لدی ہوئی ہیں اور آپکے مزاج اور رتبے سے مناسبت نہیں رکھتی۔ یا پھر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے. یا آپکے پاس ضروری قوت ارادی اور قابلیت کا فقدان ہے. یا آپ اپنی مطلوبہ سواری کیانتظار میں وقت ضائع کر رہے ہیں. ٹہل رہے ہیں، فکر مند ہیں اور یا تو خوش فہمی میں مبتلا ہیں یا پھر قسمت سے بدگماں ہیں یا خوابِ خرگوش میں ہیں – جھنجلائے ہوئے بھی ہو سکتے ہیں. ایسے میں بہتر ہے جو بھی سواری ہدف کی سمت جاتے ہوئے ملے اپنے مزاج کو طاق پر رکھ کر اس سواری میں چڑھ جائیں اور اپنے ہدف کا کچھ راستہ طے کرلیں. لیکن ہدف سے آنکھ نہ ہٹایں اور نہ ہی منہ موڑیں اور نہ ہی طریقہ کار و آلہ کار کے مطالعہ اور مشق سے درگزر کریں. اپنے کیرئیر میں پلیٹ فارم پر کھڑے رہنے سے بہتر ہے ہمیشہ سفر میں رہیں چاہے سواری جیسی بھی ہو. روزگار اور پیشہ ورانہ سفر میں ہر ایک سواری ہدف کی سمت ہی گامزن ہوتی ہے لیکن عارضی ہدف کو اصل ہدف بھی نہ سمجھ لیں.
معاشی اور پیشہ وارانہ ترقی کا کلیدی پہلو یہ ہے کہ پہلے” کچھ” حاصل کرنا ہوتا ہے. اور اس کے بعد ہی کچھ نہ کچھ یا “بہت کچھ” ہو سکتا ہے. اس کے یہ معنی بلکل نہیں ہے کے انسان بڑے خواب نہ دیکھے یا بڑی خواہش نہ کرے. وہ چاند پرگھر بسانے کی خواہش رکھتے ہوئیصرف زمیں پر اچھل کود سے شروعات نہیں کر سکتا. گنتی کے ان چند کامیاب لوگوں سے متاثر ہونا غلط طرز فکر ہے جن پر قسمت راتوں رات مہربان ہوجاتی ہے یا جنھیں بغیر “کچھ” کیے یا کچھ غلط کیے بہت کچھ مل جاتا ہے. حضرت سعدی شیرازی کی ایک حکایت اپنی ذات کے تجزیے اور اعتدال و توازن کے مفہوم کو سمجھنے میں کچھ مددگار ثابت ہو سکتی ہے. ایک فقیر نے سعدی کے محل کے دروازے پر پہونچ کر ایک درہم کا سوال کیا. سعدی نے فرمایا ہماری حیثیت کے مطابق مانگ، فقیر نے کہا پھر اپنا محل دے دو. سعدی نے فرمایا ہمنے تجھے ہماری حیثیت یاد رکھنے کہا تھا اپنی حیثیت بھولنے نہیں.
اخلاقی اقدار میں پستی اور عقاید میں اختلافات نے تعصب پسندی کا زہر انسانوں کے دلوں میں بھر دیا ہے اور بہت کم انسان اس زہر کا شکار ہونے سے محفوظ رہتے ہیں. ملازمت پیشہ خواتین و حضرات کو اس کا مقابلہ صبر و تحمل سے کرنا ہوتا ہے اور اپنے ہدف پر نگاہ رکھنی ہوتی ہے. حقیقت پسندی اور تعصب پسندی میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے. تعصب تو ویسے بھی ایک خوبصورت شخصیت کے لئے کسی گہن سے کم نہیں لیکن تعلیم اور روزگار کی راہ میں کسی بھی قسم کا تعصب ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے. لسانی تعصب سے لیکر مذہبی، مسلکی، طبقاتی، علاقایی، ملکی، نسلی، رنگی، پیشہ ورانہ، اور ہر قسم کے تعصب سے بھرے لوگ ہر ملک اور علاقہ میں مل جائیں گے. اکثر نوجوانوں کو تعصب کے خوف سے چولا بدلتے یااپنی شناخت کو چھپاتے یا اسمیں تبدیلی کرتے دیکھا گیا ہے جو ایک احمقانہ فعل ہے. شخصیت کے اجمالی مفہوم میں ظاہر اور باطن کے تمام پہلو شامل ہوتے ہیں اور اچھے باطنی پہلو دور رس نتایج کے حامل ہوتے ہیں. ظاہری شخصیت کے تعلق سے آگے چند اہم باتیں بتائی گئی ہیں. اس سوچ میں رہنا کہ ہر کوئی آپ کے ساتھ تعصب رکھے گا تو یہ غلط سوچ ہوگی. سب سے زیادہ تعصب کا شکار عورتوں کو بنایا جاتا ہے. جنکے ساتھ روزگار میں گل اور دست صبا کا معاملہ پیش آتا رہتا ہے. اس ضمن میں راقم کے سابقہ مضمون “میں بھی مظلومء نسواں سے ہوں غمناک بہت” میں ایک مطالعہ پیش کیا جا چکا ہے. حقیقت حال یہ ہے کہ تعلیمیافتہ خواتین کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اجمالی طور پر خواتین مردوں کے مقابلہ میں زیادہ تعلیمیافتہ ہو رہی ہیں اور تعصب کا شکار بھی.
عام معلومات کی اہمیت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے. موجودہ دور میں معلومات کی نوعیت جتنی اہم ہے اتنی ہی آسانی سے دستیاب بھی ہے بلکہ انگلیوں کی جنبش سے حاصل کی جاسکتی ہیں. اس کے لئیانٹرنیٹ پر مطالعہ اور اسکا مثبت استعمال کیا جاسکتا ہے. نیک جذبات کو اپنے اندر پروان چڑھانا ایک اچھی شخصیت کی تعمیر کے لئے بے حد ضروری ہے لیکن موجودہ نسل کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ مادیت پرستی کے اس دور میں اکثر غیر ضروری جذباتیت کا شکار ہو جاتی ہے. دیرینہ یاری، بچپن کی دوستی اور ایسے ہی دیگر احساسات کے تحت اکثر تعلیم و روزگار کے مسائل کو دوستوں یاروں کے من مطابق حل کرنا چاہتی ہے. جبکہ ان معاملات میں انھیں بہ نسبت دیگر احباب کے ہم پیشہ و ہم مزاج احباب کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا ضروری ہوتا ہے نہ کہ ہم پیالہ و ہم نوالہ کے ساتھ. تعلیم و روزگار کی دوڑ میں کبوتر با کبوتر، باز با باز کی طرز اختیار کرنا بہتر ہے. مالک حقیقی نے ہر ایک انسان کی صورت کیا خوب اور نقص سے پاک بنائی ہے اور اسکا اعتراف بھی کیا ہے اور اعلان بھی. پھر بھی وہ عبادات کے اوقات میں ملاقات کرنے آنے والے بندوں کو جائز زینت اور بنا سنگھار کرنے کی ترغیب دیتا ہے. روزگار کو بھی اپنا فضل بتاتا ہے. پھر کیا وجہ ہے کہ کوئی نوجوان روزگار کے معاملے میں بنا سنگھار سے احتراز کرے . مقابلہ بازی کے موجودہ دور میں خوش لباسی روزگار میں ترقی حاصل کرنے کا اہم ہتھیار ہے. اپنے آپ کو پیش کرنے کا فن سیکھیے اور اس حقیقت کو قبول کیجئے کہ کیرئیر کے لئے اپنی ذات کی “پیکیجنگ” کا خوبصورت اور مزین ہونا ضروری ہے. جائز زینت و آرایش کا شوق رکھیے کہ زرد پتوں کو اسکا اپنا درخت بھی ساتھ نہیں رکھتا. روزگار کی دوڑ میں شامل نوجوان امیدواروں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ شخصی “پیکیجنگ” میں ہلکی مسکراہٹ سے لیکر جوتوں کی پالش اور مختلف اعضا کی جنبش سے لے کر لفظوں کی ادائیگی تک کو انٹرویو میں نوٹ کیا جاتا ہے. عہدوں کی مناسبت سے اپنی “پیکیجنگ” کرنا اچھی تربیت کا حصہ ہے. ترقی کی دوڑ میں اور بھی کئی باتیں ہیں جو انٹرویو، ذاتی کوائف اورکمپنی کے پس منظر سے لیکر عالمی تجارتی مسائل تک طویل اور بے شمار موضوعات پر مشتمل ہے اور ان پر پھر کبھی کچھ کہنے کی راقم کوشش کرے گا.
انٹرویو کے لئے اپنا “بائیو ڈاٹا” اور عرضی تحریر کرنے میں خاص باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے اورجتنا اونچا عہدہ اتنی ہی احتیاط لازم ہے. ان میں لکھے گئے مواد اور “اجزائے ترکیبی و ترتیبی ” سے ہی کمپنی کے اعلی عہدیداروں کو پتہ چل جاتا ہے کہ امیدوار کا سابقہ تجربہ عہدے سے میل کھاتا ہے یا نہیں.گھسے پٹے اور طویل “بائیو ڈاٹا” ابتدائی کانٹ چھانٹ کا شکار ہو جاتے ہیں. تلاش روزگار میں ابتدا کرنے والوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ مختصر “بائیو ڈاٹا” تحریر کریں. تجربہ کارامیدواروں کے لئے بہتر ہے کہ وہ ایک صفحہ میں مختصر مگر جامع طور پر اپنے سابقہ تجربات اور اپنی کامیابیوں کو منفرد انداز میں بیان کر یں. اور اس کی شروعات حقائق پہ مبنی اس دعوے سے کریں جس میں آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ آپ میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جس کا یہ عہدہ متقاضی ہے. پڑھنے والے کو یہ محسوس ہو کہ لکھنے والے کا اپنا ایک انداز ہے. نقل شدہ یاگھسا پٹا طرز تحریر اختیار نہ کریں. اس ایک صفحے کے ساتھ بقیہ تفاصیل مروجہ طریقہ کار کے تحت منسلک کریں جس میں اپنے کوائف اور تعلیمی اسناد کا ذکر اور دیگر اہم باتیں رقم ہوں. اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ضرورت ہو توعہدے کی مناسبت سے اپنے تجربہ کو کم کر کے پیش کریں. “غیر ضروری اور بے جا اولو العزمی” کا اظہار نہ کریں کے انتظامیہ اسے Unqualified enthusiasm سے تعبیر کرے اور آپ انٹرویو میں بلائے ہی نہ جائیں. ہر ایک عہدے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، کچھ ڈیپارٹمنٹ کے، کچھ ساتھی کام کرنے والوں کے اور کچھ ” باس” کے بھی اور ان تقاضوں کی اہمیت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے. عالمی تجارتی مراکز میں انٹرویو کے مختلف مراحل ہوتے ہیں، عرضی داخل کرنے سے لیکر کر ذاتی انٹرویو اور اعلی عہدیداروں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے تک. کبھی کبھارعملی طور پر امتحانات بھی لیے جاتے ہیں. آجکل انٹرویو کا اختتام ایک اجمالی تجزیہ پر کیا جاتا ہے جہاں امیدوار کو مختلف سوالات کے جوابات تحریری طور پر دینے ہوتے ہیں. یہ وہ مرحلہ ہے جہاں کچھ اعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار خواتین و حضرات خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کر پاتے. ہر کمپنی کے سوالات کمپنی اور عہدے کے پس منظر میں مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مقصد یہی ہوتا ہے کہ امیدوار مذکورہ تمام تقاضوں کو سمجھنے کا اہل ہے یا نہیں. اور یہ بھی کے اپنی اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ کیسی تربیت کا حامل ہے اور کس قسم کی طرز فکر رکھتا ہے. . یہ وہ اہم سوالات و جوابات ہیں جو تجارت کی ترقی کے لئے ضروری ذہن سازی کرتے ہیں. سوالات کے ایسے پرچوں کی ذیل میں ایک مثال مع جوابات کے پیش کی گئی ہے.
Sample questions and answers (could be varied company to company and position to position):
What has made you successful in your previous job or
achievements? What is your recipe for success?
Absolute dedication with an objective to achieve milestones and
grow career wise.
Can you give us an example of how you work with teammates?
Working with teammates is like a relay race.
What is your definition of loyalty towards company or Employer?
Be constantly loyal and adhere to the moral values, the standard
business ethics and companys business philosophy and policy.
How you distinguish between a performer and non-performer?
A performer is an asset and a non-performer is a liability.
How important is time and resource management for you?
Time & Resource management play pivotal role in achieving individual
task and is a key element in overall company profit and growth.
Why should we hire you over the other candidates we are
currently interviewing? Sell yourself to me.
If you dont hire me you will not only lose sales but growth and
market share too and your competitor will capitalize on this opportunity.
Whats your best guess as to what your ex-boss would tell us,
about your strengths, weaknesses, and overall performance?
His strength is his will power, weakness is his assertiveness and
overall performance is: his customers and seniors always look for him.
Describe how to develop new business? Any business
Study and explore market, analyze product placement, set targets,
form a team, attack the market with predefined objectives & approaches.
What is your sales philosophy?
Selling is an art and required immense patience and passion.
What could make you successful in sales?
Target the customers satisfaction and not the sales.
As a Manager what would be your one best achievement?
To produce as many best managers as I could
As a Manager what is that one step you think can bring the team together?
Make them all focus on common enemy: the competition.
Given a choice to avail incentives for self or distribute among
teammates, what will you choose?
Will distribute the incentives in view of the achievements and will
include myself if I deserve.
اکثر سوالات ” اوبجیکٹیو ٹائپ” ہوتے ہیں اور انکی فہرست طویل ہوتی ہے. امیدوار کے لئے انٹرویو کی ریہرسل کرنا ضروری ہوتا ہے جہاں تمام امکانی سوالات اور جوابات کومختلف نقط نظر سے پرکھنا بہتر ہے. انٹرویو سے پہلے کمپنی کے بارے میں مفصل معلومات حاصل کرنا ضروری ہے. اکثردیکھا گیا ہے کہ صرف کمپنی کا نام اور تنخواہ وغیرہ کے بارے میں سرسری معلومات حاصل کر لی جاتی ہے جو بعد میں پریشانی کا باعث بن جاتی ہے. کمپنی کے اعلی عہدیداروں، مصنوعات کی فہرست، “پروڈکٹ لائین”، بازار میں کمپنی کی مصنوعات کا مقام اور حریف کمپنیوں کی مصنوعات سے انکا تقابلی موازنہ، بڑے خریداروں کی فہرست، ڈیپارٹمنٹ کے عہدیدار اور اسٹاف کی معلومات، تنخواہ کے علاوہ دیگر مفادات، محل وقوع اورذرایع آمد و رفت کے علاوہ اور بھی پہلو ہیں جن کو انٹرویو کی تیاری میں شامل کیا جانا چاہیے. اکثر امیدوار نصابی تعلیم پر مکمل انحصار کرتے ہیں اور تجارت کے جدید پہلووں کے مطالعہ سے درگزر کر جاتے ہیں. جدید تجارتی طریقہ کار اور اصطلاحات کی کچھ جانکاری انٹرنیٹ پر دستیاب ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ضروری کتابوں سے استفادہ حاصل کیا جائے کیونکہ انٹرنیٹ اس ضمن میں اب بھی اپنے عہد طفلی سے گزر رہا ہے. اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ شعبے میں مطالعہ کاذوق و شوق ہی ترقی کا بنیادی وسیلہ ہے اور اس میں کاہلی نہیں برتنا چاہیے. اسکے علاوہ اساتذہ اور تجربہ کار حضرات کی صحبت سے استفادہ کرتے رہنا بھی اشد ضروری ہے. مطالعہ اور تجربہ کار کی صحبت دونوں کچھ اس طرح ہے جیسے کوئی خزانہ کی تلاش میں نقشہ اور رہبر دونوں پر انحصار کرتے ہوئے کامیابی کو یقینی بنائے. جن لوگوں کو ترقی نہ ملنے کا رونا روتے دیکھا گیا ہے ان میں اکثر کو ایسے تمام خصائص سے عاری پایا گیا ہے. نوجوانوں کو کاہلی اور قناعت میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے اور والدین اور اساتذہ کو اس بارے میں ٹوکتے رہنا چاہیے. اکثر تعلیمیافتہ بے روزگار جوانوں کو قناعت کے وسیع پہلو میں اونگھتے ہوئے دیکھاگیا ہے یا دوسروں پر انحصار کرتے ہوئے۔ یا پھر انھیں قسمت کو کوستے. چند احمقوں کوخودی کا غلط مطلب اخذ کرتے دیکھا گیا ہے. انہوں نے خودی کے ساتھ خود کو بھی اتنا بلند کردیا کہ خدا کے ساتھ دنیانے بھی انھیں پوچھنا چھوڑ دیا کہ بتا تیری رضا کیا ہے.
اکثر نوجوانوں کو یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ ترقی صرف عالمی معیاری یا نام چین کمپنیوں میں نوکری کی ابتدا کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے. یہ بات ان چند نوجوانوں کے لئے تو صحیح بھی ثابت ہوسکتی ہے جو تعلیم و تربیت کیسمندر میں غواصی کر کے ماہر ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنی حاصل کردہ اسناد پر پورے اترتے ہیں. لیکن یہ بات ان نوجوانوں پہ لازم نہیں آتی جو سعدی کی مذکورہ حکایت کے فقیر کا کردار ہوتے ہیں. اسی لئے اس مضمون کی ابتدا میں اپنی ذات کے تجزیہ کرنے پر زور دیا گیا ہے. ایسے نوجوانوں کو اگر بڑی نام چین کمپنی میں موقع نہ ملے تو خوشدلی اور حوصلے سے کسی چھوٹی کمپنی سے ملازمت کی ابتدا کرنی چاہیے اور وہاں خوب محنت اور ایمانداری سے تجربہ حاصل کرنا بہتر ہے. بڑی کمپنیوں میں ترقی حاصل کرنے میں سخت مقابلہ ہوتا ہے اور اکثر نوجوان ترقی کی خاطر “بینچر” بن کر کام کے حقیقی تجربہ کو حاصل کرنے میں انتظار کی گھڑیاں گنتے رہتے ہیں. ان میں سے چند تو بیٹھ کر تنخواہ لینے کے عادی ہو جاتے ہیں اور جب کبھی کمپنی میں خزاں کا موسم آتا ہے تو زرد پتوں کی مانند کانٹ چھانٹ کے شکار ہو جاتے ہیں اور اگر بچ گئے تو ان پتوں کی مانند ہوا دینے لگتے ہیں جن پر تکیہ کیا گیا ہو. خود اعتمادی ایک بہترین صفات ہے لیکن جب لبالب ہو کرچھلکنے لگتی ہے تو روزگار اور ترقی میں مشکلیں پیدا کرتی ہیں. اکثر اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار میں اسکا شکار ہوتے دیکھا گیا ہے. اپنی ذات کا غلط تجزیہ کرتے اور عجلت میں غلط فیصلے کرتے دیکھا گیا ہے. انٹرویو کی تیاری میں اہم نکات کو درگزر کرتے بھی دیکھا گیا ہے. خاص کر اپنے اعلی عہدیداروں کی قابلیت اور اختیار کا غلط تخمینہ لگاتے دیکھا گیا ہے اور اس طرح روزگار میں ترقی کے مواقعوں کو گنواتے دیکھا گیا ہے. اس ضمن میں نوجوانوں کو یہ بات سمجھنا بے حدضروری ہے کہ آپ سے اوپر اگر کوئی اعلی عہدیدار ہے تو وہ یا تو آپ سے زیادہ قابلیت کی وجہ سے ہے یا پھر کمپنی کا مالک اس پر مہربان ہے اور ان سب سے بڑھ کر یا تو تمام مالکوں کا مالک اس پر مہربان ہے اور ان تینوں میں سے کسی بھی معاملے میں الجھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں. ایسے میں اگر خود اعتمادی کے جام کو نیاز مندی کی طشتری سے ڈھانپ دیا جائے تو چھلکنے کا ڈر نہیں رہتا.
“کالج ڈراپ آوٹ” کے اپنے مسائل ہوتے ہیں. خاص کر ان نوجوانوں کے جن کی تعلیم اپنے خاندان کے کمزور معاشی حالات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور جن کے کاندھوں پر وقت سے پہلے کمانے کی ذمہ داری آجاتی ہے. نوجوانوں کی یہ وہ قسم ہے جو آگے حالات جب بھی ساتھ دیتے ہیں اپنے تعلیمی سفر کو دوبارہ شروع کرتی ہے اور ایسے لوگ لائق تحسین ہوتے ہیں جو ذمہ داری کو فوقیت دیتے ہیں اور حوصلوں کے بل پر ترقی کرتے ہیں. تعلیم ان کے لئے صرف پیسے کمانے کا وسیلہ نہ ہوتے ہوئے ایک روحانی غذا کا وسیلہ ہوتی ہے اور ایسے نوجوان اپنے آپ کو روحانی، دماغی اور جسمانی ہر طور سے صحت مند رکھتے ہیں. تعلیم کے تسلسل میں وقفہ آجانے سے خود اعتمادی نہیں کھونی چاہیے. اگر ایسے وقفوں کا صحیح استمعال کیا جائے تو بہتر نتائج سامنے آتے ہیں. ان وقفوں میں ہدف کو حاصل کرنے کے مختلف طریقہ کار اور آلہ کار پر دھیان دیا جاسکتا ہے. دوبارہ تعلیم جاری رکھنی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں تبدیلی اختیار کی جانی چاہیے. “کالج ڈراپ آوٹ” کی ایک قسم وہ ہے جو اعلی تعلیم کو غیر ضروری اور وقت کا زیاں خیال کرتی ہے اور ایسے نوجوانوں کو تعلیم کا راستہ طویل اور تکلیف دہ لگتا ہے. ایسے نوجوان زندگی میں ہمیشہ مختصر راستوں کے متلاشی ہوتے ہیں اور فطری تدریجی عمل سے انحراف کرتے ہیں. ان میں سے چند تو کسی طرح منزل پا بھی لیتے ہیں. ان میں اور اول الذکر قسم میں وہی فرق ہے جو کنویں اور دریا میں ہوتا ہے.
روزگار کے معاملے میں مادی ہدف مقرر کرنا اور اس ہدف کو پانے کے لئے اعلی تعلیم کو ذریعہ بنانا ترقی کے لئے اہم ھے. ایک مادی ہدف کی خاطر مسلسل تعلیم اور سیکھنے کا عمل کمزور ترین انسان کی کامیابی کا ضامن بن جاتا ہے. اکثر نوجوان بغیر ہدف کے تعلیم و روزگار کی راہ پرگامزن ہو جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چلتے ہی رہتے ہیں. معاشی ترقی کے لئے ایک جائز مادی محرک کا ہونا فطری ہے اور دینی نقطہ نظر سے بھی یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے . اسے حرص یا مادیت پرستی سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے. سائینسی اور نفسیاتی تجربہ سے بھی ایسے کسی محرک کی اہمیت ثابت ہے اور بطور ثبوت یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ. ایک نوجوان کو کمپیوٹر اسکرین پر جلتی بجھتی متحرک گیند کی گنتی کرنے کے لئے کہا گیا. اور یہ بھی کہ ہر ایک گنتی پر اسے ایک ڈالر دیا جائیگا. اسے یہ نہیں بتایا گیا کہ ایک کیمرہ نصب کیا گیا ہے اور اسکی پلکوں کے جھپکنے میں اور متحرک گیند میں شعاعوں کے ذریعے ربط پیدا کیاگیا ہے. یعنی گیند کی ہر حرکت کا دارومدار اسکی پلکوں کے جھپکنے پر ہے. نوجوان نے گنتی شروع کرتے ہی پلکوں کو جھپکانا شروع کیا اور گنتی کے ساتھ ساتھ اس عمل میں تیزی آتی گئی. لا شعوری طور پر وہ نوجوان اپنے ہدف کی سمت نظریں گاڑھے اپنی پلکوں کے جھپکنے سے بے خبر متحرک گیند کو گنتا رہا اور دل ہی دل میں ڈالر بھی. مادی ہدف میں ایک گھر خریدنے سے لیکر ازدواجی زندگی کی شروعات تک سب کچھ شامل ہو سکتا ہے. اس میں اپنی ذاتی ضرورت کے علاوہ بہن بھائیوں اور والدین کی مادی ضروریات بھی ہو سکتی ہے یا کار خیر کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے. لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مادی ہدف مذکورہ روحانیت اور مادیت کے توازن کو کہیں بگاڑ نہ دے. اس مضمون کی تمہید میں موجودہ طرز تعلیم کا جو حال بیان کیا گیا ہے اس کا اہل فکر اور ذمہ دار حضرات کو صحیح حل تلاش کرنا ضروری ہے ورنہ روزگار کے مسائل بڑھتے جائیں گے. بنیادی تعلیم و تربیت میں تبدیلی ضروری ہے اور والدین اور اساتذہ کو اس کا مل کر خیال رکھنا ہوگا. تجارتی ذہنیت سے تعلیم کے شعبہ کا جو حال ہوا ہے اس نے دنیا کو تعلیم یافتہ معزز شرفا تو بے شمار دیے ہیں لیکن محنت کش، ایماندار اور حوصلہ مند نوجوان بہت کم دیے. مارکس کی ہوڑ میں شامل ہوکراور ٹیوشن پڑھ کر اعلی نمبروں سے کامیاب ہونے والے چند ہزار اعلی تعلیم یافتہ اور تجارتی نقطہ نظر سے کائیاں حضرات سے “کارپوریٹ” اور تجارت کی دنیا تو آگے ترقی کر سکتی ہے لیکن معاشرہ اپنے تہذیبی ارتقائی سفر میں پیچھے کی سمت دوڑے گا. کیونکہ لاکھوں بلکہ کروڑوں غیر تعلیم یافتہ یا نیم تعلیم یافتہ نوجوان مستقل روزگار حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں. ذمہ داران اور اہل اقتدار حضرات کا ہدف دس پندرہ فیصد اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مستقبل ہوتا ہے جن سے ان کا کاروبار چلتا ہے اور شہرت ہوتی ہے. ان کا ہدف ایک صحت مند معاشرہ کی تعمیر نہیں ہوتا جہاں زیادہ سے زیادہ بنیادی اور ضروری تعلیم سے لیس نوجوان ہوں جو مختلف فنون سے بھی آراستہ ہوں اور روزگار کے مسائل حل کرنے میں مدد گار ہوں. انھیں وجوہات کی بنا پر معاشرہ میں غیر منصفانہ دولت کی تقسیم ہوتی ہے اور آبادی کا اسی سے زاید فیصد حصہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم رہتا ہے.
موجودہ ابتدائیہ اور ثانویہ تعلیم جس نہج پر چل رہی ہے یا چلا ئی جارہی ہیں وہ اہل علم و نظر پر عیاں ہے. اسکی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج تیسری جماعت کے طلبا بھی اپنے نصاب میں موجود “پروجیکٹ” اور کمپیوٹر جیسے موضوعات پر بلا تردد گفتگو کرتے ہیں. لیکن نصاب میں یہ نقص اب بھی موجود ہے کہ مادیت اور روحانیت میں درکار توازن کو سمجھنے اور سمجھانے کے اصول سے اغماض برتا گیا ہے، اور اخلاقیات پر مبنی مضامین یا تو نصاب میں بے حدکم پائے جاتے ہیں یا پھر ان کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا گیا ہے. اس کا ایک یہی ممکنہ حل نظر آتا ہے کہ عصری اور دینی نصاب کو ضم کردیا جائے اور ثانوی تعلیم سے پہلے ہی دینی نصاب کو مکمل کردیا جائے تاکہ اخلاقیات کے جواہر قلب و ذہن میں پیوست ہوجائیں اور روزگار کے سفر میں زاد راہ ثابت ہوں. اسے نافذ کرنے میں جو مسائل در پیش ہیں اسکا حل ڈھونڈنا کو ئی مشکل کام نہیں ہے اور علمائے دین کو اس میں حکمت عملی کا مظاہرہ کر خیر و شر کے تقاضوں پر غور و فکر کرنا چاہیے، اور وہ سمجھوتے جو خیر کی خاطر بے حد ضروری ہیں اور جو حدود شرع میں نہیں آتے اور نہ ہی فرائض پر اثر انداز ہوتے ہیں ان کو قبول کرنا چاہیے. والدین کے لئے دوران تربیت اپنی اولاد کو یہ باور کرانا بے حد ضروری ہے کہ علم میں تفریق بے معنی ہے اور اسے نافع بنانا ہی اسکے حصول کا اصل مقصد ہے، اور یہ بھی کہ نافع علم دنیا و آخرت دونوں کے لئے نافع ہے. اس غلط فہمی کے حصار سے اب باہر آنا ضروری ہے کہ کوئی علم یا کوئی زبان مغربی ہے یا مشرقی. روزگار، تجارت، صنعت و حرفت ہر شعبے میں ترقی کرنا ضروری ہے اور ان کو حتی الامکان اسلامائیز کرنا بھی، اور ان کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی. چاہے زبانیں ہوں یا علم الاقتصادیات یا علم طب، یا ملبوسات کا کاروبار ، ان سب کو اسلامائیز کرنے میں کسی قسم کی قباحت محسوس نہیں کی جانی چا ہیے کہ ایسا کرنے سے کسی کا جانی، مالی یا اخلاقی نقصان نہیں ہوگا بلکہ تمام انسانیت کی بھلائی ہی ہوگی. اس سچائی کو اپنے ہوں یا پرائے سب دل سے قبول کرتے ہیں..لیکن اسے اپنانے کی پہل اپنوں سے ہونی چاہیے ….
موجودہ نصاب میں عملیت پسندی کے رحجان کو پروان چڑھانے کا فقدان ہے اور طلبا میں خود انحصاری کے جذبہ کو تقویت دینے کا خاطر خواہ مواد ناپید ہے. اس لئے والدین کو ان امور کو گھریلو تربیت میں شامل کرنا بے حد ضروری ہے. تعلیم یافتہ والدین کے لئے ایسے تمام مسائل کا حل نکالنا کوئی مشکل کام نہیں. انہیں نصاب کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اور دینی اور اخلاقی نقطہ نظر سے جو نقائص ہیں ان سے بچوں کو آگاہ کرنا ہوگا. مادیت اور روحانیت میں درکار توازن کو تسلسل کے ساتھ بتاتے اور جتاتے رہنا ضروری ہے . اس ضمن میں اسکول، ماہر تعلیم یا ماہر نصاب پر مکمل انحصار کرنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے. والدین کو آنے والے برسوں میں تعلیم و روزگار کے چور دروازوں سے داخل ہونے والے فتنہ کا ابھی سے تدارک کرنا ہوگا. معاشرہ میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب بگڑتا جارہا ہے اور غیر شر عی رشت ازدواج کے راستے فتنہ ارتداد کے امکانات بھی پیدا ہو رہے ہیں. بالخصوص ایسے ممالک میں جہاں غیر مسلم لڑکے اور لڑکیوں کا تناسب مسلمان لڑکے اور لڑکیوں کے تناسب کے بر عکس ہونے کا اندیشہ ہے، اور بالعموم ساری دنیا میں کہ برقی و اطلاعاتی انقلاب سے دنیا ایک عالمی معاشرہ میں تبدیل ہو ا چاہتی ہے. ایسے حالات سے نقصان اٹھانے کے بجائے اسے اپنے حق میں فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے کہ شر کو خیر سے بدلنے میں ہی دراصل انسانیت کی بقا ہے، اور دین فطرت کے قیام و دوام اور وسعت کے لئے اسے کار آمد بنانا بے حد ضروری ہے. ان امور پر شد و مد سے غور فکر کرنے کی ضرورت ہے. اس فتنہ سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ اپنی اولاد کو دینی علوم اور اخلاقی امور سے مزین اور مسلح کرنا ہوگا، خاصکر “صنف رحمت” یعنی لڑکیوں کو کہ بگڑتے تناسب کے مد نظر مذکورہ فتنہ کے شکار ہونے کے زیادہ امکانات انہیں ہی در پیش ہونگے. دینی علوم سے مزین لڑکیاں اس فتنہ سے پیدا ہونے والے شر کو خیر میں تبدیل کرنے پر قادر ہونگی.
تعلیم نسواں اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کی تعلیم ، بلکہ انسانی نسلوں کی صحیح تربیت کے لئے اور اس دور پر فتن میں دینی و دنیاوی حقوق و فرائض کو سمجھنے اور گھریلو تربیت کی ذمہ داری نباہنے کے لئے، مردوں کی تعلیم سے ایک درجہ زیادہ تعلیم نسواں افضلیت اور اہمیت رکھتی ہے. لیکن اسکے ساتھ ساتھ مناسب اہداف اور صحیح ترجیحات بھی ضروری ہیں. مندرجہ بالا تمام نکات پر غور و فکر کر مختلف اہداف مقرر کیے جاسکتے ہیں جن میں تعلیم و روزگار کے علاوہ تربیتی اہداف بھی شامل ہوں. تعلیم و روزگار کے اہداف میں کئی انتخابات و ترجیحات ہیں. اعلی تعلیم نسواں کے لئے ایک مستحسن ہدف….”ای لرننگ”، یعنی برقی فاصلاتی تعلیم، ہو سکتا ہے. ای لرننگ میں.. ادب و فن، تجارت، انتظامیہ، معاشیات، ریاضی، تعمیر و تزئین، کمپیوٹر، صحت و سیاحت اور دیگر کئی شعبوں کو شامل کیا گیا ہے، اور گھر بیٹھے یا محدود آمد و رفت کے ساتھ کم اخراجات پر تعلیم مکمل کی جاسکتی ہے. اسی طرح روزگار کے معاملے میں ان امور پر غور و فکر کیا جاسکتا ہے جیسے؛ گھریلو تجارت و صنعت، “ٹاسک اورینٹڈ جابس” یعنی مخصوص اور مقرر کردہ کام جسکی انجام دہی وقت اور پیشہ کی خاصیت پر مشتمل ہوتی ہے، برقی و مواصلاتی وسائل پر مبنی تجارت، پیشہ یا روزگار جو گھر بیٹھے انجام دئے جاسکتے ہوں یا محدود آمد و رفت کے ساتھ انجام دیے جاسکتے ہوں، یا پیشہ ورانہ آزادی کے ساتھ انجام دیے جاسکتے ہوں، اور جو جمہوریت کے اس فلسفہ پر قائم ہوں جسے ” تجارت نسواں” کہا جا سکتا ہو، یعنی خواتین کی تجارت، خواتین کے ذریعہ اور خواتین کے لئے. ایسے تمام روزگار میں برقی تجارت بہترین ترجیحات پیش کرتی ہے جیسے ؛ “بی ٹو بی”، “ای کامرس” یا “ای کیٹرنگ” اسلماییزڈ ڈریس ڈیزائیننگ، ای ہیلتھ اینڈ میڈیسین،”کے ایم”، “ای کاونسلنگ” ای ٹیچنگ” وغیرہ ، وغیرہ .
اس سے قبل کہ مستقبل کے عالمی معاشرہ کا خاکہ پیش کیا جائے اور اس سے تعلیم اور روزگار پر ہونے والے اثرات پر بحث کی جائے، برقی، اطلاعتی و مواصلاتی انقلاب سے پیدا شدہ ان دو امور پر بحث کرنا ضروری ہے جو مستقبل میں تعلیم و روزگار کی دنیا میں نیا انقلاب لے آئیں گے. مستقبل میں روزگار کے لئے “کے ایم” اور تجربہ کاری ایسے دو پہلو ہیں جنکی بہت اہمیت ہو گی.
اول؛ “KM” جو “نالیج مینیجمینٹ” کا مخفف ہے، یعنی معلومات کو منظم کرنے کا علم جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور متعلقہ شعبوں پر یا تو حاوی ہوگا یا انہیں اپنے میں ضم کرلے گا.. انٹر نیٹ کی دنیا میں جس تیز رفتاری سے مختلف معلومات کا جہاں ایک وسیع اور عمیق سمندر وجود میں آرہا ہے ونہیں اسے منظم کرنا ضروری مگر دشوار ہوتا جارہا ہے، اور اس کا حل “کے ایم” میں موجود ہے. مستقبل قریب میں اس میں مہارت رکھنے والوں کی مانگ ہونے کے امکانات بہت ہیں اور ہر ایک شعبے میں ہیں . انٹرنیٹ پر جس رفتار سے معلومات کا خزانہ جمع ہورہا اور جس قدر بے ربط اور غیر منظم طریقہ سے ہورہا ہے، اور جس کا استعمال انفرادی اور اجتماعی طور پر جس طرز پر کیا جارہا ہے وہ ایک ایسے نظام کا متقاضی ہے جسے “کے ایم” سے تعبیر کیا جا سکتا ہے. ویسے جدید تجارت میں “کے ایم” کی اصطلاح نئی نہیں ہے اور پیشہ ور خواتین و حضرات کے علاوہ اعلی تعلیم یافتہ خواتین و حضرات بھی اس سے واقفیت رکھتے ہیں. اکثر عالمی تجارتی ادارے اسکی اہمیت کے پیش نظر کئی برسوں کے تجربات پر مشتمل معلومات کو کے ایم کے ذریعہ محفوظ کرنے میں مسلسل کوشاں رہتے ہیں. والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو اس ضمن میں تیار کریں اور ہر قسم کی جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال کو گھروں میں اور اسکولوں میں عام کریں، بلکہ ٹیکنالوجی کو زیورات، کھلونوں اور ملبوسات پر ترجیح دیں اور انکے جائز استعمال کی ترغیب دیں. انٹرنیٹ، کلاڈ کمپیوٹنگ، آر ڈی ایم ایس، ایچ ٹی ایم ایل، ڈاٹا وئیر ہاوسنگ اور ان سے جڑے موضوعات پر مطالعہ کے وسائل اپنی اولاد کو فراہم کریں. نویں اور دسویں جماعت کے طلبا میں کے ایم کا رحجان پروان چڑھانا کچھ مشکل نہیں. اس کے لئے انکے روز مرہ کے مطالعہ اور نصاب کو کمپیوٹر پر ایک ترتیب سے محفوظ کرنے کی مشق کرائی جاسکتی ہے اور اسکے لئے مناسب پروگرامس کا استعمال کیا جاسکتا ہے، جہاں ڈاٹا فائیلز کو ترتیب وار نام دے کر مختلف خانوں میں محفوظ کرنے سے شروعات کی جاسکتی ہے.
دوم یہ کہ مستقبل میں تعلیم کے ساتھ تجربہ کار خواتین و حضرات کی اہمیت کسی نا تجربہ کار مگر اعلی تعلیم یافتہ سے زیادہ ہوگی. اعلی تعلیم کے حصول میں آسانی سے تعلیم یافتہ جوانوں کی تعداد میں جس درجہ اور جس رفتار سے اضافہ ہورہا ہے وہ روزگار میں مواقعوں کی فراہمی اور دستیابی کی رفتار سے میل نہیں کھاتا… مستقبل قریب میں بہتر روزگار کے حصول کی دوڑ میں ہر دس میں سے آٹھ امیدوار اعلی تعلیم یافتہ ہوگا، اور تقریبا ہر شعبہ میں یہی حال ہوگا، اس وقت تجارتی ادارے ایسے امیدواروں کو ترجیح دینگے جو اپنے پیشہ میں یا اس سے منسلک شعبہ میں خاطر خواہ تجربہ رکھتے ہوں. اس لئے جو اعلی تعلیم یافتہ خواتین و حضرات تجربہ اور تعلیم کے موزوں تناسب سے لیس ہوکر روزگار کے میدان میں داخل ہونگے انہیں زیادہ مواقع میسر ہونگے. اس لئے بر سر روزگار رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرنا اور ضروتا فاصلاتی قلیل مدتی سرٹیفیکٹ کورسیز جن میں اب اینجینیرنگ کورسیزبھی شامل کیے جا رہے ہیں، حاصل کرنا زیادہ بہتر ہوگا. خاصکر ایسے کورسیز جو آنے والے ایام میں “اپلائیڈ بزنس میتھڈس” پر مشتمل ہونگے.
مستقبل میں عالمی معاشرے کا جو خاکہ ہوگا اسے والدین اور اساتذہ کو ذہن میں رکھنا ہوگا اور طلبا کے تعلیم و روزگار کے اہداف کو مقرر کرنا ہوگا. مستقبل میں ترقی یافتہ شہر جو “میگا سٹی” کہلائیں گے اور جن میں “گیگا مالز” کی بھر مار ہوگی، اور ہر ایک ایجاد کے ساتھ “سوپر” کا دم چھلا ہوگا، صنعتی اور تجارتی اداروں کا بجٹ کسی ملک کے بجٹ کے مماثل ہوگا، جن میں سے اکثر ادارے عالمی متحدہ اداروں کی شکل اختیار کر چکے ہونگے اور کسی ریاستی حکومت کی طرح مضبوط اور طاقتور ہونگے، اور انکی مصنوعات کی پیداوار جو اب ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی ہے وہ کروڑوں کی تعداد میں ہوگی، اور جو “ماس پروڈکشن ہا س” اور “سوپر انڈسٹریل ہاس” کہلائیں گے. ہر ایک مصنوعات رفتار اور مقابلہ بازی کی دوڑ میں شامل ہوگی. ایسے ماحول میں تعلیم و روزگار کے لئے آنے والی نسلوں کو کس قسم کی تیاری کروانا ہے یہ موجودہ دور کے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات خوب سمجھ سکتے ہیں. تعلیم کے ساتھ تربیت کے دوران جس قسم کی ذہنی نشو نما کی ضرورت ہوگی اسکا اندازہ ان سب باتوں سے لگایا جا سکتا ہے. کسی ایک مخصوص علم پر اکتفا کر روزگار کے میدان میں مقابلہ آرائی بے حد مشکل ہوگی. “نا لیج مکس” کا زمانہ ہوگا اور اکثر ہر فن مولا امیداوار کامیابی سے ہمکنار ہونگے، اس کے یہ معنی نہیں کہ متخصص حضرات کو گھر بیٹھنا ہوگا، بلکہ انکی مانگ اسقدر نہیں ہوگی جتنی ماضی میں ہوا کرتی تھی. کارخانہ حیات کے اکثر و بیشتر نظام “انٹیگریٹید سسٹم” کے اصولوں کے تحت کام کریں گے جہاں، برقی، اطلاعاتی، لا سلکی مواصلاتی نظام کے ساتھ ساتھ علم الاقتصادیت و معاشیات و سیاست، انجینیرنگ اور تجارت و صنعت کے متعلق بھی خاطر خواہ معلومات درکار ہونگی، جہاں وسیع ترین ذرائع نقل و حمل اور “لوجیسٹیک سسٹم” کے علاوہ فی سیکنڈ پیداوار کا تخمینہ پیش کرنے کا فن درکار ہوگا. تجارتی اخراجات اور منافع کے جدید اصول متعارف کیے جائینگے، صارفین کی نئی تعریف لکھی جائیگی اور تخمینہ اور تجزیہ کاری کے اصول پیچیدہ تر ہوتے جائینگے.
برقی مواصلات کا عالمی جال پیچیدہ تر ہوتا جائیگا اور جدید لاسلکی مواصلاتی نظام متعارف کیے جائینگے . توانائی کے حصول کے جدید ذرائع جو فی الحقیقت ایجاد یا تلاش کیے جا چکے ہیں اور صنعت و تجارت کے اصولوں کے سبب مخفی ہیں وہ سب بازار میں متعارف کر دئے جائینگے. مختلف صنعتی پیداوار اور کان کنی کے کام زمین کے علاوہ خلائی دنیا میں بھی کیے جائینگے اور خلا میں موجود توانا ئی کے ذخیرہ جو دریافت کر لئے گیے ہیں انہیں بروئے کار لانے کی مہم اور مقابلہ بازی تیز ہو جائیگی. خود کار نظام کے تحت آنے والی مشینیں، کاریں، جہاز اور آہنی پرزوں کو توانائی پہنچانے کے جدید ذرائع منظر عام پر آئینگے جو تیل، پیٹرول اور ڈیزل کا ایک حد تک متبادل ہونگے. اسی طرح زراعت و آبپاشی اور غلہ بانی کے جدید ترین طریق کار بھی تعلیم و روزگارکے ذریعے منظر عام پر آئینگے جس پر تحقیق اور جانچ مکمل ہو چکی ہیں. ان تمام علوم میں انتخابات اور ترجیحات پر غور و فکر کرنا اور طلبا میں مناسب رحجان کو پروان چڑھانا ضروری ہے. اور موجودہ برقی دور میں یہ کوئی مشکل کام نہیں. مردم شماری کے نئے اصول وضع کر دئے جائینگے. تقریبا دیہات اور گاں چھوٹے بڑے شہروں میں تبدیل کر دیے جائینگے. انسانی آبادی کا تخمینہ “ایکولوجیکل فوٹ پرنٹ” کی بنیاد پر ہوگا اور شہروں کے رقبہ اور محل وقوع کو شہر کی آبادی میں تقسیم کر دیا جائیگا. ایسے ہی بے شمار پیچیدہ اصولوں پر تجارت و صنعت و حرفت کا نظام قائم ہوگا. یہ تمام علوم اور تحقیقات ایکدوسرے سے یوں “انٹیگریٹید” یا جڑے ہونگے کے ان میں مہارت حاصل کرنے والے ذہن کی نشو و نما مخصوص تعلیم و تربیت اور پرورش کا مطالبہ کریگی. ان کا حل “2KM” یعنی “نالج مکس اینڈ نالج مینیجمینٹ” میں پوشیدہ ہوگا. اور طلبا کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ بھلے ہی اعلی تعلیم کا ہدف مقرر کرنے میں تخصیص کا خیال رکھیں لیکن ساتھ ساتھ دیگر علوم پر بھی دسترس رکھیں جو مستقبل میں روزگار کے حصول اور ترقی کے لئے بے حد اہم ہونگے.
جہاں بنیادی اور اعلی تعلیم مہنگی ہوتی جارہی ہیں ونہیں اکثر حکومتیں اور ادارے بنیادی تعلیم کے حصول کو آسان بنانے میں اور امداد فراہم کرنے میں کئی کئی سالہ منصوبے بناتے رہتے ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ اصل حقدار یعنی طلبہ کو اس کا صحیح علم نہیں ہوتا اور ان امداد کے حصول کے طریقہ کار پر مناسب معلومات بھی فراہم نہیں کی جاتی. اس میں جس قدر حکومتی اداروں اور سیاسی رہنماں کا قصور ہے اتنا ہی والدین اور اساتذہ اور محلے کے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کا بھی ہے کہ وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہو کر کوشسش نہیں کرتے اور معاملے کی اہمیت سے لا پرواہی برتتے ہیں. اسکے علاوہ امداد کی کاغذی کاروائیاں اسقدر پیچیدہ ہوتی ہیں اور اسقدر سست رفتاری سے انجام دی جاتی ہیں کہ منصوبوں پر کامیابی کے ساتھ عمل درآمد نہیں ہو پاتا. بنیادی تعلیم کے حصول کو آسان کرنے اور مستحق طلبا کو مالی امداد بہم پہنچانے، اور “ڈراپ آوٹ” میں کمی لانے کے لئے ضروری اقدامات کرنے ہونگے، اور انفرادی، اجتماعی، عائلی اور محلاتی سطح پر کرنے ہونگے. خاصکر بر صغیر میں جہاں بد عنوانیاں اور لا قانونیت کا دور دورہ رہتا ہے اور موجودہ سیاست کی زلف پیچاں سنوارنے میں اہل علم و اقتدار سب بے بس نظر آتے ہیں…… تعلیمی امداد مہیا کرنے کے ضمن میں معاشرہ میں انقلابی اقدامات درکار ہیں اور زمینی حقائق سے آگاہی بے حد ضروری ہے. حالانکہ تعلیم کے میدان میں مالی امداد بہم پہنچانے کے لئے سینکڑوں “این جی اوز” اور غیر سیاسی اور غیر حکومتی ادارے فعال ہیں اور عالمی سطح پر وسیع اور جدید طرز پر کام کررہے ہیں، لیکن جو “این جی اوز” ہیں انکی انتظامیہ کے اخراجات اسقدر ہیں کے الاماں. اربوں کھربوں کی سالانہ مالی امداد موصول ہوتی ہیں لیکن انتظامیہ کے اخراجات ٢بیس سے چالیس فیصد کی شرح پر کروڑوں میں پہنچ جاتے ہیں. اور جو حکومتی ادارے ہیں وہ اسقدر بد عنوان ہیں کہ مستحق کو اسکا حق نہیں پہنچ پاتا. اس لئے تعلیمی امداد کے کاموں میں شامل دینی اور سماجی تنظیموں کو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر مستحق طلبا کو پہنچنے والی امداد کو صد فیصد یقینی بنانا ہوگا. اس ضمن میں راقم الحروف نے حال ہی میں ایک تنظیم کے لئے اپنی تحقیقات اور اپنا مطالعہ مکمل کیا ہے اور اب انکے ساتھ ملکر ایک ایسے “ویب پورٹل” کی بنا ڈالی ہے جو بنیادی طور پر “ڈونرز” اور ” اسٹوڈنٹس” کے درمیان پل کا کام کریگی. تعلیم کے معاملے میں دی جانے والی ہر قسم کی امداد کو براہ راست طلبا اور اسکول کو پہنچانے میں انٹرنیٹ یا برقی مواصلاتی نظام کی مراعات فراہم کرے گی، مالی امداد دینے والوں میں اور طلبا اور اسکولوں میں براہ راست تعلق پیدا کریگی اور طلبا کی کارگردگی اور نتائج سے مسلسل آگاہی فراہم کرے گی، اور خود کسی قسم کے مالی لین دین میں ملوث ہوئے بغیر اس امدادی کام کو انجام دینے میں خدمات انجام دیگی. دنیا میں اپنی نوعیت کا شاید یہ انوکھا “پورٹل” ہوگا یا تنظیم ہوگی انشااللہ جو آنے والے دنوں میں تعلیمی امداد کی فراہمی میں پل کا کام دے گی. اس ضمن میں تفصیلات جلد ہی منظر عام پر لائی جائینگی..
حصول تعلیم کے مختلف نافع و شافع مقاصد میں ایک مقصد علمی و عقلی بحث و مباحثہ بھی ہے تاکہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر شر کو خیر میں تبدیل کرنے کے دور رس نتائج پر پہنچا جائے کیونکہ ہدایتوں کے مختلف سر چشمے جو رحمت خداوندی کا مظہر ہیں وہ تمام کے تمام اسقدر مفصل و مبین نہیں فراہم کیے گیے ہیں کہ انسان بلا تگ و دود سب کچھ آسانی سیسمجھ لے، اور اہل عقل و دانش کی اہمیت جو قرآن کریم سے خود ثابت ہے وہ باقی ہی نہ رہے، اور افکار و تدبر میں عرق ریزی کے اور راہ خدا میں جد و جہد کے راستے ہی باقی نہ رہیں. علمی و عقلی بحث و مباحثہ کے بغیر نہ تفسیر و تفہیم ممکن ہے اور نہ ہی استنباط و اجتہاد. اس لئے حصول علم کا ایک مستحسن مقصد ضروری علمی و عقلی بحث و مباحثہ کرنا ہے، خاصکر ان امور میں جسکی ضرورت نظام فطرت کے نفاذ، دین فطرت کی تو سیع و عروج اور قوم و ملت اور انسانیت کی بھلائی کے لئے از حد ضروری ہیں، خاصکر ایسے تیر رفتار مادی دور میں جہاں روحانیت اور مادیت میں نہ صرف یہ کہ توازن محال ہے بلکہ ان دونوں میں سے کسی میں بھی حد درجہ کمیت یا حد درجہ زیادیت جہاں انفرادی و اجتماعی ایمانی قوت کو زیر و زبر کرنے کا باعث ہو سکتی ہے ونہیں دین فطرت کے استحکام و تو سیع میں رکاوٹوں کا باعث بھی ہوسکتی ہے. ان نکات پر توجہ دینا از حد ضروری ہے. یہ وہ نکات ہیں جن کا تعلق، اسلامی اور جدید طرز تعلیم و تجارت، لین دین، بینکنگ، انشورنس سے بھی ہے اور ان اصطلاحات سے بھی ہیں جو ان امور سے تعلق رکھتی ہیں، خاصکر ربو ، انٹرسٹ، سود، بینکنگ، یو ژری، رہن، ادھار، احتیاج، اضطرار ، انشورنس، زکات، اور ایسی ہی دیگر اصطلاحات سے .
تعلیم نسواں اور تجارت و روزگار نسواں میں “صنف رحمت” کو در پیش عائلی مسائل کے حل پر بحث بھی بے حد ضروری ہے، ورنہ یہی تعلیم و روزگار “صنف رحمت” کو “صنف زحمت” بنا کر رکھ دیں گے. جہیز اور طلاق کے مسائل کا ایک مثبت حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکیوں کو شادی سے پہلے تعلیم و روزگار کے امور میں خود کفیل کردیا جائے اور ضرورت ہو تو انکے وراثت اور جائیداد کے حقوق ادا کردئے جائیں، اور انکی فطرت کے عین مطابق انہیں وہ تمام وسائل مہیا کیے جائیں جو دور حاضر میں روزگار کی ذلتوں سے نجات دے اور نسوانیت کا وقار قایم رکھا سکے . انکے مزاج میں اس ودیعت کردہ توازن، خوش اسلوبی، بے لوث ممتا اور جذبہ صبر کو بر قرارکھا سکے جسکے بغیر گھر کو جنت بنانے اور نسلوں کو تربیت یافتہ بنانے کا تصور ہی محال ہے. جسکے بغیر انکے باپ بیٹوں اور بھائیوں کی انفرادی اور خاندان اور معاشرہ کی اجتماعی پر سکون زندگی کا تصور بھی محال ہے. انہیں وہ تمام مراعات و وسائل حاصل ہوں جن کے نہ ہونے سے انہیں احساس قید و پابندی کا احساس ہوتا ہو اور غیر ضروری ذمہ داریوں میں انہیں مجبورا شامل ہونا پڑتا ہو …. وہ مغرب کی دی ہو ئی آزادی نسواں کے سراب کے پیچھے بھاگنے پر مجبور نہ ہوں. ان نکات پر ٹھوس دلائل ذیل میں دئے گئے ہیں اور جسے ثابت کرنے کے لئے ایک عالمی تجزیہ یا سروے رپورٹ درکار ہے جسکی تجویز بھی ذیل میں پیش کی گئی ہے.
دور حاضر کا بغور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہیکہ تہذیب جدیدہ نے معاشرہ میں اکثر مردوں کو عورت کی کمائی پر یا تو زندہ رہنے کی عادت میں مبتلا کردیا ہے یا ذمہ داریوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے نام پر مل بانٹ کر ذمہ داری کا بوجھ ڈھونے پر مجبور کر دیا ہے، جس میں مرد کی تو ذمہ داری ٹہری لیکن عورت کی “غیر ذمہ داری”. حساب کتاب اور تجزیاتی امور میں ماہر اعلی تعلیم یافتہ موجودہ نسل بس اس ایک ذمہ داری کے تجزیہ میں منہ کے بل گر پڑی ہے، ورنہ دفتری اور تجاراتی اور معاشی تجزیہ کاری میں ذمہ داریوں کی تقسیم کو با قاعدہ وقت، انسانی استطاعت، قابلیت اور نفسیاتی و نفسانی ضرویات کے پیمانوں پر تولا اور ناپا گیا ہے اور ماشہ ماشہ اور سوت سوت کا حساب نکالا گیا ہے. ماں بہنوں اور بیٹیوں کو “غیر ذمہ داری” کے اس سراب سے باہر نکلنا چاہیے جو اہل مغرب کی دین ہے. یہاں اس بحث کا مقصد ان دو مختلف افکار کے فرق کو ظاہر کرنا ہے جسے دانستہ نا دانستہ پوشیدہ رکھ کر کارخانہ حیات میں خیر اور شر کے توازن میں بگاڑ لایا گیا ہے . اور یہ فرق وہی ہے جو ” آزادی نسواں نسوانیت کے وقار کے ساتھ” اور آزادی نسواں انسانی تہذیبی انحطاط کے ساتھ’ میں پایا جاتا ہے. مغربی طرز کی آزادی نسواں اور تعلیم نسواں نے آج انسانیت کو جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے اسکی تفصیل یہاں بے جا ہے اور اہل فکر و نظر پر اظہر من الشمس عیاں ہیں. اسکے بجائے وہ آزادی نسواں اور تعلیم نسواں جسکی اجازت دین فطرت خود دیتا ہے اور بہ حیثیت حقوق عورت کو عطا کرتا ہے ، جسے سمجھنے میں اور سمجھانے میں اکثر تعصب برتا گیا ہے. ان حقائق کو سمجھنے کے لئے ان عمر رسیدہ، تجربہ کار، جہاندیدہ خواتین کی زندگی کا تجزیہ اور مشاہدہ کرنا ہوگا اور انکے ذاتی تجربات سے استفادہ کرنا ہوگا جو روزگار کی چکی میں پس کر اپنی عمر کے نازک اور اہم دور کی بلی تہذیب جدیدہ پر چڑھا چکی ہیں، اور بلآخر خاوند اور خاندان کے ساتھ مل کر بوجھ ڈھونے کے باوجود بھی نہ خاندانی مسائل کم کر سکی ہیں اور نہ ہی دنیا کے معاشی اور اقتصادی مسائل کم ہوئے ہیں، جن کی دہائی دے دے کر “صنف رحمت” کو دنیا کے لئے “صنف زحمت” بنا کر رکھ دیا گیا ہے. بلکہ انہیں مختلف اقسام کے ذہنی اور جسمانی امراض میں مبتلا کر دیا گیا ہے، جسکی وجہ سے آج انسانیت بستر مرگ پر ہے اور شرافت دم توڑ چکی ہے . ان دیانت دار خواتین سے سوالات و جوابات پر مبنی ایسی دستاویزات بنانی ہوگی جو انسانیت کی بھلائی پر مبنی ہو، جو “صنف رحمت” کی صحیح نمایندگی کرنا چاہتی ہوں، جو صدق دل سے حقائق پیش کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہوں اور اسکی اہمیت بھی سمجھتی ہوں.
جس رفتار سے مادیت پرستی کی لہر نے قوم و ملت کے بیٹے بیٹیوں کی ذہنی نشو نما کی ہے اور اس سے مستقبل میں جو نئی نسل پیدا ہوگی وہ اپنی شناخت کو قائم رکھنے میں ذہنی انتشار و قلبی خلفشار کا شکار ہوگی. اسکے لئے موجودہ نسلوں کو ابھی سے ضروری اقدامات کرنے ہونگے. اور یہ اقدامات عائلی سطح پر کرنے ہونگے جس میں کو ئی خاص مشکل بھی در پیش نہیں ہے. بس دین سے دوری اختیار نہ کی جایے اور زیادہ سے زیادہ رغبت پیدا کی جایے اور اسے قائم رکھنے کے وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ روزگار کے میدان میں ممکنہ بے راہروی، فسق و فجور اور شرک و کفر میں ملوث ہونے کا تدارک کیا جاسکے. تعلیم و روزگار کے حصول میں مقابلہ بازی نے ادب، صحافت، ٹیکنالوجی، برقی و اطلاعاتی مواصلات، سائینس اور فنون لطیفہ کو جدت پسندی اور آزاد خیالی کی چمک دمک سے اسقدر خوشنما بنا دیا ہے کہ فحاشی اور اخلاقیات کا فرق برائے نام رہ گیا ہے اور شرک خفی اور شرک جلی میں بھی فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے – اس بات کا بھی خیال ض ضرو ر رہے کہ تعلیم کے بغیر ایمان کا پودا پروان نہیں چڑھتا اور خود رو جھا ڑیوں کی طرح گرد و غبار میں اٹا پڑا رہتا ہے –