نیند میں سب سے پہلے قوت ارادی کو قرار آتا ہے اور وہ بے عمل ہو جاتی ہے۔بیداری پر یہ سب سے آخر میں بحال ہوتی ہے۔اس لیے ہر آدمی کو یہ تجربہ ہوتا ہے کہ نیند کے غلبے کے ساتھ ہی قوت ارادی مقابلہ نہیں کر سکتی۔آئے دن بسوں اور ٹرکوں کے حادثے ہوتے ہیں۔بے احتیاتی سے قطع نظر رات کو نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔تو ڈرائیور قوت ارادی کے ہتھیار سے مقابلہ کرتا اور شکست کھاتا ہے۔نیند اٹل ہے اسی طرح آدمی صبح آنکھ کھلتے ہی فوراً ہی نہیں اٹھ بیٹھتا۔قوت ارادی اور توانائی بحال کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ نیند میں بھی یاد داشت اور فکری قوت تا دیرقائم رہتی ہے۔جب قوت ارادی اور قوت استدلال ناکارہ ہو جاتی ہے۔اور نیند خوب گہری نہیں ہوتی تب یاد داشت اور قوت فکر نمایا ہو جاتی ہے۔خواب کی حالت میں انکا کام بہت متنوع ہوتا ہے۔صاف اور واضع تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔یہ ذہن کی کارستانی ہوتی ہے۔ان تصویروں کے اتھ ساتھ جسمانی سطح میں سننی خیز لہریں دوڑتی ہیں۔اندرونی غیر منظم اعضاء بھی اس تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں۔رات کو خوب ٹھونس کر کھانا کھانے اور معدہ بھرنے سے خواب پریشاں آتے ہیں۔اسطرح نیند اذیت کا باعث بن جاتی ہے۔
دماغ کا جو حصہ حرکات جسمانی میں باقائدگی پیدا کرتا ہے۔وہ دیر کے بعد آغوش خواب بن جاتا ہے۔مگر وہ کامل طور پر بے حس نہیں ہوتا۔سوتے وقت کئی لوگ کروٹیں لیتے ہیں کچھ حرکات بھی سرزد ہو جاتی ہیں۔لیکن وہ بیدار نہیں ہوتے بلکہ نیند کی حالت میں ہی رہتے ہیں۔اسکا سبب دماغ کے اس حصے کی جزوی بیداری ہے۔اس طرح جب آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پہلے جسمانی حرکات کا مرکزذہن بیدار ہوتا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔