واجدہ تبسم اذکار و افکار ہندوستان سے تعلق رکھنے والی نوجوان اسکالر مسرور صغری کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے چند روز قبل دہلی کے ایک ناشر
نے دلکش انداز میں شائع کیا ہے۔ کتاب کا سرورق، عقبی ورق اور فہرست منسلک کی جارہ
کتاب کے حصہ اول “عکس صفات” میں شمس الرحمان فاروقی، زبیر رضوی، علی احمد فاطمی، محمد حامد سراج، حقانی القاسمی و دیگر کی تحریریں شامل ہیں۔ مذکورہ تحریروں سے واجدہ تبسم کی شخصیت اور فن کے کئی مخفی گوشوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ “عکس ذات” نامی حصے میں واجدہ تبسم کے چند اہم ترین انٹرویوز، حصہ سوم “عکس شاعری” میں ان کا منتخب کردہ کلام اور حصہ چہارم میں خاتون کے چند خطوط شامل کیے گئے ہیں۔
اپنے تعارفی مضمون میں محترم شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں:
ایک وقت تھا جب واجدہ تبسم کا نام گھر گھر گونج رہا تھا، بچے بچے کی زبان پر تھا۔ کوئی انھیں فحش نگار کہتا، کوئی بے رحم حقیقت پرست، لیکن ان کے افسانوںکی عمدہ بناوٹ، ان کے کرداروں اور مکالموں میں واقعیت کا زور، حید ر آباد کے پرانے مسلمان گھرانوں کی تہذیب سے ان کی گہری اور براہ راست واقفیت، ان باتوں کے قائل سب تھے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب واجدہ تبسم کے حوالے سے لوگ یہ بھی کہنے لگے تھے کہ اردو افسانہ اب مغربی افسانے سے آنکھ ملانے کے لائق ہو گیا ہے۔ یہ بات افسوس ناک سہی، لیکن اس وقت اعلیٰ اور ادنیٰ کی پہچان (خاص کر افسانے کے میدان میں)، اس بات پر مبنی ہوتی تھی کہ آیا یہ افسانہ، یا فلاں افسانہ نگار کا کارنامہ، مغربی معیاروں پر پورا اترتاہے؟ اس زمانے میں اکثر چیزیں اسی طرح دیکھی جاتی تھیں، حتیٰ کہ میر او رمیر انیس اور غالب اور اقبال کی شاعری کے بارے میں بھی لوگ پوچھتے تھے کہ اگر انھیں مغربی ادب کے ایوان میں رکھا جائے تو وہاںان کی جگہ کہاںمتعین ہو گی، اور متعین ہو گی بھی کہ نہیں؟ محمد حسین آزاد کا قول لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی زندہ تھا کہ اگر مغربی معیاروں سے تمہاری زبان (زبان، صرف ادب نہیں) کو پرکھا جائے گا تو اس کی جگہ ایوان ادب کے ’پا انداز‘ میں ہو گی، بس۔یہ اسی زہر کی گانٹھ ہے جو ہمارے میدان ادب میں آج تک زہریلے پھول کھلا رہی ہے۔ چنانچہ ابھی حال ہی میںاردو کے ایک پروفیسرصاحب کا بیان نظر سے گذرا کہ اردو ایک ’مفلس‘ زبان ہے۔
محترم حامد سراج رقم طراز ہیں:
واجدہ تبسم کے فن کی باریکیوں کو پرکھنے کے لئے ‘ان کی بے پناہ تخلیقی قوت کے پیمانے جانچنے کے لئے وقت نے اپنی مہر تو ثبت کرنا تھی ۔ اور یہ ناگزیر تھا ۔ جب وقت کے ساتھ گرد چھٹتی ہے تو ہیرے اپنی دمک دکھاتے ہیں ۔ جوہری ان کی قیمت مقرر کرتا ہے ۔ وہ سنگ ریزے نہیں ہوتے کہ مٹی میں رل جائیں ۔ اردو زبان وادب نے واجدہ تبسم کے حوالے سے یہ کام مسرور صغریٰ سے لیا ہے ۔ان کی گراں مایہ محنت بہ عنوان ” واجدہ تبسم : اذکار و افکار“ میرے سامنے ہے ۔ خوش گوار حیرت اس بات پر ہے کہ مسرور صغریٰ نے مروجہ ادق تنقیدی زبان کی بجائے ریشمی افسانوی اسلوب سے اس تحقیق کو نبھایا ہے ۔ یوں جانئے کہ بس ناول کی مانند اس تحقیق کو پڑھتے چلے جائیے اور لطف لیجئے ۔ مجال ہے کہیں اکتاہٹ آپ کو آلے۔
واجدہ تبسم پر لکھنا ایک قرض تھا ایک فرض جو کسی نہ کسی کو نبھانا تھا ۔ یہ خوش قسمتی مسرور صغریٰ کے حصے میں آئی ۔ یہ کتاب ایک ایسا سنگ میل ہے واجدہ تبسم کی شخصیت اور فن کے حوالے سے جو وقت کی اہم ترین ضرورت تھی ۔ یہ نہ صرف عہد رواں کے ناقدین کی صف میں مسرورصغریٰ کو اپنا قد کھڑا کرے گی بل کے اردو ادب اور افسانے کے قاری پر ان کا ناقابل فراموش احسان ہے۔
واجدہ تبسم اذکار و افکار ہندوستان سے تعلق رکھنے والی نوجوان اسکالر مسرور صغری کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے چند روز قبل دہلی کے ایک ناشر
کتاب دلچسپ ہے اور واجدہ تبسم پر ایک اہم دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔
ڈھائی سو صفحات کی کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے۔ صغری خاتون کی خواہش کے مطابق ان سے رابطہ کرکے یہ کتاب براہ راست حاصل کی جاسکتی ہے، ان کا پتہ و رابطہ نمبر یہ ہے:
مسرور صغری
روم نمبر 008
گنگا ہاسٹل
جواہر لال یونیورسٹی
فون نمبرز:
08826868574
8527039248
راشد اشرف
کراچی سے